دوشنبه، خرداد ۱۰، ۱۳۸۹

مقابلہ تقریر و مقالہ نویسی کا اختتام


بارہویں تقریب تقریر ومقالہ نویسی، شعر ومشاعرہ اور نظم خوانی (فارسی، عربی، بلوچی، اور انگریزی زبانوں میں) بمقام دارالعلوم زاهدان منگل 25 مئی سے شروع ہوکر جمعرات 27 مئی کی شام تک جاری رہی۔
یہ مقابلہ صوبہ سیستان وبلوچستان کے دینی مدارس کے طلبہ کے درمیان منعقد ہوا۔ اس تقریب کے علاوہ زاہدان شہر کی سطح پر متعدد مدرسۃ البنات سے تعلق رکھنی والی طالبات نے بھی تقریب مقابلہ منعقد کرایا۔ تقریر ومقالہ نویسی میں مقابلے فارسی، عربی اور بلوچی زبانوں میں منعقد ہوئے۔تقریب کے افتتاحی پروگرام میں سرپرست دارالافتاء دارالعلوم زاہدان، مولانا مفتی محمد قاسم قاسمی نے خطاب کیا۔ مدیر "ندائے اسلام" اور استاذ حدیث دارالعلوم کے فکر انگیز خطاب کا خلاصہ ملاحظہ ہو:کس قدر افسوسناک بات ہے کہ آج کل دنیا میں کوئی ہماری نہیں سنتی۔ مثلاً چند دن پہلے انٹرنیٹ پر دنیا کا موجودہ اور مستقبل کا نقشہ شائع ہواتھا۔ میں نے سوچا ہم مسلمان نقشوں اور سرحدوں کی تعیین میں کس قدر موثر ہیں؟ بہت سارے ممالک بظاہر سامراج کے قبضہ سے آزاد ہوئے مگر فکری ونظریاتی طور پر ابھی تک مغرب کے فلسفے ونظریات کے غلام ہیں۔در حقیقت عالم اسلام ذہنی غلامی کا شکار ہوچکاہے اس لیے مسلمانوں کو غلامانہ ذہنیت سے نجات دلانے کے لیے سوچنے اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ یہ کام علمائے کرام اور داعیان دین کا ہے۔ فتنہ تاتار ومغل کامقابلہ علمائے کرام، عرفاء اور داعیان دین ہی نے کیا۔ چنانچہ مغل اور تاتاریوں کے حملے کے بعد دنیا کے قانون کے برعکس فاتح اور حملہ آور مفتوح سے متاثر ہوا اور علمائے اسلام حملہ آور مغلوں پر غالب آئے۔ علماء کی کامیابی کا راز اخلاص و احتساب میں ہے۔محترم طلبہ! یہ ساری کاوشیں، درس وتدریس، تقاریر وتحریر کے مقابلے وغیرہ سب اس لیے ہیں کہ ہم علم وحکمت سیکھنے کے بعد معاشرے کے فرد فرد تک دین کا پیغام پہنچائیں۔مقابلے میں حصہ لینے والے طلبہ کو مخاطب قرار دیتے ہوئے آخر میں مفتی صاحب نے مجدد الف ثانی امام احمد سرہندی رحمہ اللہ سے نقل قول کیا: "حقیقی انقلاب صرف دھواں دار اور پر جوش تقریروں اور کثرت معلومات سے حاصل نہیں ہوتاہے مگر یہ کہ تقریر کے ساتھ چار چیزیں ہوں: 1۔ اصلاح شدہ نفس؛ 2۔ اخلاص سے مالامال دل؛ 3۔ مسلمانوں کی حالت زار کا احساس ہونا؛ 4۔ اسلام کی اجنبیت ومظلومیت کا احساس ودرد۔مفتی محمد قاسم قاسمی نے مزید کہا مجدد الف ثانی نے ان چار خصوصیات کے حصول کا نسخہ بھی بیان فرمایا ہے: پہلا نسخہ: کثرت ذکر وعبادت « فاذا فرغت فانصب»؛ دوسرا نسخہ: صلحاء کی صحبت ومجالست اور تیسرا نسخہ سلف کے اچھے طریقوں کی اتباع اور ان کے نقش قدم پر چلنا۔اختتامی نشست میں حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید کا خطابصوبے کے بین المدارس تقریب مقابلے کی آخری نشست شب جمعہ کو مغرب کی نماز کے بعد تلاوت قرآن پاک سے شروع ہوئی۔ تلاوت کے بعد ،،محبان رسول،، نامی نظم گروپ نے بلوچی زبان میں نعت رسول پیش کی۔ نعت نبوی کے بعد حضرت شیخ الاسلام دامت برکاتہم نے خطاب کا آغاز کیا۔مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم نے خطبہ مسنونہ اور قرآنی آیت «فلولا نفر من کل فرقۃ۔۔۔ » کی تلاوت کرتے ہوئے یوں گویا ہوئے: جس زمانے میں ہم رہتے ہیں اس کے اپنے تقاضے اور خصوصیات ہیں، دعوت وتعلیم کا کام بھی زمانے کے تقاضوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ دنیا نے ذرائع کے اعتبار سے بہت ترقی کی ہے، انٹرنیٹ کے ذریعہ لمحوں میں اپنی بات دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچائی جاسکتی ہے۔ جس طرح عیسائیت ویہودیت سمیت دیگر مذاہب کی تبلیغ اس ذریعے سے ہوتی ہے اس طرح اگر ہم مسلمان اپنی بات دوسروں کو پہنچانا چاہتے ہیں اور اس محاذ پر اسلام کا دفاع کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس نوزائیدہ ذریعہ ابلاغ کا استعمال کرنا ہوگا۔ انٹرنیٹ کے بہتر استعمال کے لیے دنیا کی اہم زبانوں پر مہارت و دسترسی حاصل کرنی پڑے گی۔ اسلام اور دین کے حوالے سے صحیح معلومات رکھنے والا شخص بآسانی اسلام کا تعارف پیش کرکے شبہات کا جواب دے سکتا ہے۔ چند لمحوں میں اس کی بات پوری دنیا کے سامنے آتی ہے۔شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے مزید کہا ایک کامیاب اور مفید تقریر وہ ہے جو تعصب اور جذباتیت سے پاک ہو اور استدلال، منطق اور حقیقت پسندی کے زیور سے آراستہ ہو۔ جو شخص اچھا اور کامیاب مقرر بننا چاہتا ہے تو اْسے متعلقہ زبان پر مکمل دسترسی حاصل کرنے کے علاوہ، دیگر نظریات وخیالات کو مدنظر رکھ کر اپنا نقطہ نظر مستدل انداز میں پیش کرنا چاہیے۔شعر وشاعری کی اہمیت واضح کرتے ہوئے خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا شیخ سعدی، مولوی، اقبال لاہوری و۔۔۔ وہ مسلمان شعراء ہیں جنہوں نے شاعری کے ذریعے اسلام کی خدمت کی۔اس لیے کہ ان عظیم شاعروں نے شعر گوئی کا صحیح راستہ اختیار کیا تھا۔ لیکن قرآن کریم نے ان شاعروں کی مذمت کی ہے جو نامناسب، عشقی اور شہوانی اشعار سے اپنی خباثت ظاہر کرتے ہیں۔دینی مدارس کی طالبات کی بڑی تعداد حضرت شیخ الاسلام کی تقریر سن رہی تھیں، طالبات کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا پوری تاریخ میں بے شمار مائیں معاشرے کو دیندار اور لائق افراد مہیا کر گئیں۔ خواتین ہمیشہ مردوں کے حامی وپشتیبان رہی ہیں۔ آج بھی بعض ملکوں میں خواتین اہم مناصب پر فائز ہیں، اس لیے مسلمان خواتین کو چاہیے زندگی کے مختلف میدانوں اور شعبوں میں فعال کردار اداء کرکے اسلام اور انسانی معاشرے کی خدمت کا عزم کریں۔مولانا عبدالحمید حفظہ اللہ نے مزید کہا یہ ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے، اگر ہم زمانے کے تقاضوں کو نظر انداز کریں تو کوئی ہماری بات پر کان نہیں دھرے گا اور ہم دنیا سے پیچھے رہ جائیں گے۔انہوں نے فارسی وعربی زبانوں کے علاوہ انگریزی اور روسی زبانوں پر دسترسی حاصل کرنے کی تاکید کرتے ہوئے حاضرین کو یہ زبانیں سیکھنے کی ترغیب دی۔بات آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا وہ زمانہ گزر گیا جب دنیا کمیونیزم اور سرمایہ دارانہ نظام کے دو بلاکوں میں تقسیم تھی، آج پوری دنیا اس بات پر متحد ہوچکی ہے کہ اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹا کر مسلمانوں کو منحرف کیا جائے۔ عراق وافغانستان پر چڑھائی اور اسلامی ملکوں میں دخل اندازی کا مقصد بھی یہی ہے۔ ہمارے دشمنوں کی کوشش یہ ہے کہ اسلام کا اصل چہرہ مسخ کرکے لوگوں کو اسلام کے بارے میں بد ظن کیا جائے۔ جہاد اور اسلامی تعلیمات کا معنی ومفہوم تبدیل کیا جائے چنانچہ بعض شیعہ اور سنی دانشور اس سے متاثر ہوچکے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب سارے اسلامی ممالک متحد تھے اور ایک فرد سرزمین کی سربراہی کرتا تھا لیکن سامراجیوں نے اختلاف وخانہ جنگی کے بیج بو کر مسلمانوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنادیا۔سرپرست دارالعلوم زاہدان نے علماء وطلباء کو نصیحت کی کہ عالم اسلام کی بحرانی صورتحال سے خود کو لا تعلق نہ رکھیں، تعلیم وتبلیغ اور غیر مسلموں کی جانب سے پھیلائے جانے والے شبہات کے ازالے کے حوالے سے فعال کردار ادا کریں۔بات آگے بڑھا کر مولانا عبدالحمید نے دینی مدارس کے بعض نصابی کتابوں پر تنقید کی جو علم کلام کے بارے میں ہیں۔ انہوں نے کہا ہمیں زمانہ ماضی کے تقاضوں کا مقلد نہیں ہونا چاہیے۔ جو قوانین صدیوں پرانے اور اْس زمانے کے مطابق ہیں ہمارے لیے غیر مفید ہیں۔ میرا ذاتی خیال ہے فقہی مسائل سے بالاتر ہوکر اب اسلام پر ہونے والے حملوں اور پھیلائے گئے شبہات کا ازالہ کرنا چاہیے۔آخر میں حضرت شیخ الاسلام دامت برکاتہم نے طلبہ وطالبات کو مخاطب کرتے ہوئے کہا سب کو ہر قسم کی مشکلات کا مقابلہ کرنے کیلیے تیار رہنا چاہیے۔ دینی مدارس کی چھٹیاں قریب آچکی ہیں اس لیے طلبہ کرام مختلف فنون وعلوم میں مہارت حاصل کرنے اور معاشرے کے ہر طبقہ تک دین کا پیغام پہنچانے کے لیے ابھی سے منصوبہ بندی کریں۔ آج کل جماعتیں او مختلف تنظیمیں منصوبہ بندی اور جدید ذرائع و آلات کے استعمال سے آگے بڑھ رہی ہیں۔ ہمیں بھی جدید آلات اگر چہ محدود ہوں سے لیس ہوکر کام کرنا چاہیے۔ کم ذرائع سے زیادہ سے زیادہ کام لیکر مقصد کی طرف بڑھنا چاہیے۔مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم کے حکیمانہ و پدرانہ خطاب کے بعد مختلف زبانوں میں تقریر، شعر و مقالہ نویسی میں پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ کو انعامات دیے گئے۔مقابلوں کی یہ تقریب "شورائے مدارس اہل سنت سیستان وبلوچستان" کی جانب سے منعقد ہوئی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ "انتشارات صدیقی" کی طرف سے منعقد ہونے والا کتب میلہ شرکائے تقریب کی توجہ کا مرکز بن گیا۔

کابل کی پلُ چرخی جیل


کابل کی پلُ چرخی جیل ایک عرصے تک ظلم اور ناانصافیوں کے بارے میں بدنام تھی۔
سابق سویت یونین کے دور میں پراسرار گمشدگیوں اور پھانیسوں کے بارے میں بدنام زمانہ اس جیل میں گزشتہ تیس دہائیوں سے افغان حکومت کے دشمن یا خطرناک مجرموں کو رکھا جاتا ہے۔
افغان تاریخ کے اس پرآشوب دور میں اس قید خانے کی موٹی موٹی دیواروں کے پیچھے سزا یافتہ قاتلوں اور منشیات کے سمگلروں کے ساتھ طالبان بھی ایک بڑی تعداد میں قید ہیں۔
افغانستان کی اس سب سے بڑی جیل میں جہاں ملک میں قیدیوں کی ایک تہائی تعداد قید ہے، ہمیں جانے کا موقع فراہم کیا گیا۔
اکثر طالبان قیدیوں کو جیل کے انتہائی سکیورٹی والے حصہ میں رکھا جاتا ہے جو قیدخانے کی بلائی منزل پر قائم ہے اور یہ حصہ ’دی زون‘ کے نام سے مشہور ہے۔
ہمیں اس حصہ میں جانے کا موقع بھی ملا جس میں صرف القاعدہ اور طالبان سے تعلق رکھنے والے قیدی پابندِ سلاسل ہیں۔
اس حصے میں جانے کے لیے جب ہم سیڑھیاں چھڑ رہے تھے تو ہماری رہنمائی کرنے والے محافظ ہمیں مستقل خبردار کرتے رہے کہ یہ قیدی خطرناک بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔
جیل کے طویل برآمدے سے صرف تلاوت اور چولہے پر چھڑی چائے کی کیتلیوں میں ابلتے ہوئے پانی کی ملی جلی آوازیں گونج رہی تھیں۔
اس جیل میں آٹھ فٹ چوڑی اور آٹھ فٹ لمبی کوٹھریوں میں کہیں دو اور کہیں تین قیدی بند تھے۔
جیل میں طالبان بھی موجود ہیں
بہت سے قیدی ان کوٹھریوں میں آلتی پالتی مارے بیٹھے تھے اور تقریباً سب کے ہاتھوں میں تسبیاں تھیں۔ ایک قیدی جس نے مجھے بتایا کہ انھیں موت کی سزا سنائی گئی ہے سفید اور سرخ دانوں کی ایک تسبیی پھیر رہے تھے جس کے دانوں پر مسلمانوں کی سب سے مقدس جگہ خانہ کعبہ کا عکس تھا۔
اس حصے میں بہت کم ملاقاتیوں کو آنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ اس لیے بہت سے قیدی بات کرنے کے مشتاق تھے۔بہت سے قیدیوں کا کہنا تھا کہ افغانستان میں اس وقت تک جنگ بند نہیں ہو سکتی جب تک یہاں غیر ملکی فوجی موجود ہیں۔
بشیر احمد قنات بھی ان ہی قیدیوں میں شامل تھے تاہم وہ زیادہ شدت پسند خیالات کے حامل تھے۔ کالی اور سفید پگڑی پہنے ہوئے بشیر احمد قنات نے ہمیں اپنی کوٹھری میں آنے کو کہا۔
انھوں نے کہا کہ کوئی مسلمان اور کوئی افغان اپنی سرزمین پر عیسائیوں اور یہودیوں کی موجودگی برداشت نہیں کرے گا۔ حامد کرزئی کو بھی اب ان سے مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
میں نے اس سے طالبان سے مذاکرات کی نئی حکمت عملی پر بات کی۔ ’ہم افغان بھائی بھائی ہیں اور ہمیں ایک دوسرے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ افغان آئین کے تحت ملک میں شریعت نافذ کی جانی ہے۔قید میں بھی طالبان اپنے مقصد کے بارے میں بہت واضح ہیں۔
جنرل عبدل بہزودی اور جیل کے ڈائریکٹر جنرل نے اپنے دفتر میں وہ الماری دکھائی جو موبائل فون، خنجر اور مختلف قسم کے آلات سے بھری ہوئی تھی۔جنرل عبدل بہزودی نے کہا کہ ان موبائل فون کے ذریعے طالبان دنیا بھر میں کالیں کرتے تھے جن میں پاکستان کا شہر کوئٹہ بھی شامل تھا جہاں سے طالبان قیادت خود کش حملوں کی ہدایت دیتی ہیں۔
اب جیل میں سکیورٹی غیر معمولی حد تک بڑھا دی گئی ہے۔ ہر ملاقاتی کو جیل میں داخل ہونے سے قبل پانچ مرتبہ تلاشی لی جاتی ہے۔
ہم نے گارڈز کو قید خانے میں داخل ہونے والے ملاقاتیوں کی تلاشی لیتے ہوئے دیکھا۔ گارڈز کھانے کے ڈبووں اور ملاقاتیوں کے جوتوں کی ایڑیوں کو بھی دیکھ رہے تھے کہ کہیں کوئی موبائل فون یا ان کی سمیں یا نوٹ چھپا کر نہ لے جا رہے ہوں۔
گزشتہ نومبر میں اس قید خانے میں ہنگامے میں کئی قیدی ہلاک اور زخمی ہو گئے تھے۔ حکام کا کہنا تھا کہ ان ہنگاموں میں سات قیدی ہلاک ہوئے تھے۔ تاہم طالبان ہلاک ہونے والی کی تعداد کہیں زیادہ بتاتے ہیں۔
جیل میں مدرسہ بھی موجود ہے
قیدیوں کا کہنا تھا کہ وہ اپنے حقوق کے لیے احتجاج کر رہے تھے۔جیل حکام کا کہنا تھا کہ طالبان اور دوسرے قیدیوں کو کہیں زیادہ آزادی حاصل ہے۔
جیل کی سب سے اوپر والی منزل میں ہماری ملاقات طالبان کمانڈر صلاح الدین سے ہوئے جسے دوسرے قیدی اپنا لیڈر تسلیم کرتے ہیں۔
انتہائی پراعتماد یہ شخص میدان جنگ میں اپنے کارناموں کی کہانیاں سنانے لگا۔وہ ان کی تفصیلات میں جائے بغیر یہ کارنامے گنوانے لگا۔ گارڈز کی موجودگی کی اسے کوئی پریشانی نہیں تھی۔ وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا تھا کہ معاملات اب بھی اس کے ہاتھ میں ہیں۔
گارڈز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس نے کہا کہ یہ ہمیں جیل میں رکھنے کے ذمہ دار ہیں، لیکن اندر ہمیں کس طرح رہنا ہے یہ وہ خود طے کرتے ہیں۔قیدی افغان ججوں کی بدعنوانی کی شکایت کرتے ہیں۔
جیل کے سربراہ بہزودی نے بتایا کہ زون ڈی میں طالبان نے اپنی عدالت بھی بنا رکھی اور وہاں پر انھوں نے اسلامی امارات پاکستان کا نشان بھی لگا رکھا ہے۔
غروب آفتاب کے بعد وہ جیل کے برآمدے میں جماعت کرواتے ہیں۔جیل میں قیدیوں کی مذہبی درس و تدریس کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ طالبان اپنے بلاک میں خود تدریسی جماعتوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ صلاح الدین نے ہمیں ان جماعتوں میں آنے کو کہا۔
بہت سے قیدی اس سے قبل کابل کے شمال میں واقع بگرام کے امریکی اڈے پر قائم جیل میں بھی رہ چکے تھے۔ انھوں نے وہاں جسمانی تشدد کی شکایت کی۔ البتہ پل چرخی جیل میں انھیں کوئی شکایت نہیں تھی۔
انھیں صرف یہ شکایت تھی کہ اکثر قیدیوں کو ان کی سزا کی مدت پورے ہونے کے باوجود رہا نہیں کیا جاتا۔
پل چرخی جیل میں اب قیدیوں کی اصلاح اور بحالی پر زور ہے۔ بیرونی امداد سے جیل کی عمارت میں توسیع کی جا رہی ہے تاکہ میں جیل میں زیادہ قیدیوں کی گنجائش پیدا کی جا سکے۔
جیل کی دیواروں اور واچ ٹاورز کے سائے سے پرے قیدیوں کو بہت سے مراعات حاصل ہیں جن میں جسمانی ورزش کی کلاسوں سمیت تفریحی کے اور بھی مواقع دیئے جاتے ہیں۔
بہت سے قیدی تیز دھوپ میں اپنی کمر پر لوشن لگا کر بیٹھے رہتے ہیں۔
طالبان سے مذاکرات کی حکمت عملی پر اگر عملدرآمد ہوا تو اس قید میں موجود بہت سے قیدیوں کو ایک دن رہائی نصیب ہو جائے گی۔

کراچی ساحل اور بگٹی قہوہ


پاکستان کے سب سے بڑے اورغریب پرور شہر کراچی میں ایسے کئی افراد اپنا گزارہ روزانہ اجرت کی بنیاد پر کرتے ہیں جو اپنے ہی ملک میں بعض سیاسی وجوہات کی بناء پر دربدر ہوئے ہیں۔
ان میں صوبہ بلوچستان سے دربدر ہونے والے بگٹی شامل ہیں جو سابقِ فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں شروع کیے جانے والے فوجی آپریشن کی وجہ سے اپنے ہی ملک کے اندر دربدری پر مجبور ہوئے ہیں۔
ان بگٹیوں میں سے ایک درجن کے قریب لوگ کراچی کے ساحل کلفٹن پر اپنے علاقے کا مشہور قہوہ فروخت کرتے ہیں جو تفریح کے لیے آنے والے لوگوں میں کافی مقبول ہوچکا ہے، عام لوگ اسے بلوچستان کا قہوہ یا سبز چائے سمجھ کر شوق سے پیتے ہیں۔
’کلفٹن سی ویو‘ پر قہوہ فروش بگٹیوں میں سے ایک غلام نبی بگٹی نے بتایا ہے کہ ان کے گروپ کے افراد شام چار بجے کے قریب ساحل سمندر پر پہنچنا شروع ہوجاتے ہیں اور رات کو دو بجے تک وہاں موجود رہتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کا قہوہ بلا کسی تفریق یا تعصب کے پسند کیا جاتا ہے۔
چار سال قبل نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد وہ اپنے علاقوں سے دربدر ہونے کے بعد بلوچستان سے ملحقہ صوبہ سندھ کے اضلاع جیکب آباد، سکھر سے ہوتے ہوئے خیرپور اور سانگھڑ تک پہنچے مگر انہیں کہیں ایسا روزگار میسر نہ ہوسکا جو کلفٹن کراچی پر ملا ہے
غلام نبی بگٹی
غلام نبی بگٹی اپنے کاندھوں پر ایک لکڑی کی مدد سے قہوہ، پانی اور لیموں سمیت قہوے کا تمام سامان اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چار سال قبل نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد وہ اپنے علاقوں سے دربدر ہونے کے بعد بلوچستان سے ملحقہ سندھ کے اضلاع جیکب آباد، سکھر سے ہوتے ہوئے خیرپور اور سانگھڑ تک پہنچے مگر انہیں کہیں روزگار میسر نہ ہوسکا۔
غلام نبی بگٹی کا کہنا ہے کہ وہ ڈیرہ بگٹی سے آگے دشوار گزار پہاڑی سلسلے سنگسیلا کے رہائشی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ جب نواب اکبر بگٹی کے بنگلے پر فوجی کارروائی ہوئی تو انہوں نے سنگسیلا سے اپنے چھ آٹھ پڑوسی خاندانوں کے ہمراہ نقل مکانی شروع کی۔
غلام نبی نے بتایا ہے کہ اونٹوں اور گدھوں کی مدد سے چالیس پچاس افراد کا قافلہ پٹ فیڈر کے علاقے تک پہنچا اور وہاں سے انہیں ٹرک مل گئے جس کی مدد سے وہ صوبہ سندھ کے علاقے سانگھر تک پہنچ گئے۔
غلام نبی کے ساتھ ایک اور دربدر بگٹی میر ہزار بھی موجود ہیں۔ وہ اپنے جیسے دیگربگٹیوں کے ساتھ ساحل سمندر کے قریب کلفٹن کے دو بنگلوں کے چوکیداروں کے پاس رہائش پذیر ہیں۔انہوں نے بتایا کہ وہ دوپہر کو کلفٹن پر پہنچ جاتے ہیں مگر ان کا روزگار شام کے بعد شروع ہوتا ہے اور رات گئے تک جاری رہتا ہے۔

سی وی کلفٹن پر قہوہ فروش دربدر بگٹی اپنے آبائی علاقوں اور پہاڑی سلسلے کو بہت یاد کرتے رہتے ہیں
کلفٹن سی وی پر قہوہ فروش بگٹیوں کے اہل خانہ سانگھڑ، خیرپور اور سکھر جیسے دور دراز علاقوں میں رہائش پذیر ہیں جبکہ وہ قہوہ فرخت کرنے کے پندرہ دنوں کے بعد اپنے اہل خانہ سے ملنے ان علاقوں کا سفر کرتے ہیں۔
باریش بزرگ غلام نبی اور میر ہزار اپنے ساتھ موبائل فون رکھتے ہیں مگر کراچی کی عام سماجی زندگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ بزرگ غلام نبی کو شکایت ہے کہ ساحل سمندر پر آنے والے جوڑے بقول ان کے ’انگریزوں سے بھی آگے نکل چکے ہیں۔‘
یہ لوگ بلوچستان میں اپنے آبائی علاقوں میں ہونیوالے فوجی آپریشن اور نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت جیسے موضوعات بات کرنے سےگریز کرتے ہیں۔
وہ کراچی میں قہوہ فروخت کرنے آئے ہیں اگر سیاسی باتیں شروع کیں تو انہیں خدشہ رہتا ہے کہ وہ یہاں سے بھی دربدر نے کیے جائیں گے
غلام نبی بگٹی
سیاسی باتیں سن کر وہ خاموش اور مشکوک نظروں سے دیکھتے رہتے ہیں اور آخر میں تبصرہ کرنے سے معذرت کر لیتے ہیں۔ بلوچستان میں جاری سیاسی کشیدگی کے ان کی زندگی پر برے اثرات تو عیاں ہیں مگر وہ خود اپنی زبان سے ان حالات پر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔
غلام نبی نے ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ وہ کراچی میں قہوہ فروخت کرنے آئے ہیں اگر سیاسی باتیں شروع کیں تو انہیں خدشہ ہے کہ وہ یہاں سے بھی نکلنا پڑ جائیگا۔ انہوں نے بتایا کہ ابتدائی دنوں میں وہ کلفٹن پر بعض مزدور پیشہ افراد کے تعصبانہ رویے کا شکار رہے مگر بڑی مشکلوں سے انھوں نے ان تعصبات کا سامنا کیا اور انہیں نظرانداز کیا ہے۔
سی وی کلفٹن پر قہوہ فروش دربدر بگٹی اپنے آبائی علاقوں اور پہاڑی سلسلے کو بہت یاد کرتے رہتے ہیں۔وہ سنگسیلا کی پہاڑوں کو کراچی سے بہتر سمجھتے ہیں۔ان کے بقول اگر بلوچستان میں لڑائی ختم ہوجائے تو وہ ایک دن بھی اپنے پہاڑوں سے دور نہیں رہ سکیں گے۔ وہ جلد سے جلد اپنے آبائی گھر واپس چلے جائیں گے مگر انہیں وہ دن قریب نظر نہیں آرہا ہے۔
قہوہ فروش بگٹیوں کا کہنا ہے کہ وہ صرف امید ہی کر سکتے ہیں کہ بلوچستان کے حالات بہتر ہوجائیں اور وہ واپس اپنے علاقوں کی طرف جائیں جہاں وہ فوجی آپریشن سے قبل نسبتاً بہتر زندگی گزار رہے تھے۔

لائبریری قبضہ کیس : مولانا عبدالعزیز، اہلیہ اور بیٹی بری


اسلام آباد: سول جج جوڈیشل مجسٹریٹ اسلام آباد امیر مختار گوندل کی عدالت نے ماڈرن لائبریری قبضہ کیس کی سماعت کرتے ہوئے لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز ان کی اہلیہ اور بیٹی کو بری کردیاہے ۔ملزمان پر الزام تھا کہ انہوں نے3سال قبل اسلام آباد کی ماڈرن لائبریری پر قبضہ کیا تھا جس پر فاضل عدالت نے گواہان اور عدم ثبوت کی روشنی میں3سال زیر التواء رہنے والے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے ملزمان مولانا عبدالعزیز ان کی اہلیہ ام احسان اور بیٹی طیبہ کو باعزت بری کردیا۔

افغانستان میں ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد1076 تک پینچ گئی ہے


عراق جنگ میں ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد4404 تک پہنچ گئی ہےجبکہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی ہلاکتوں کی تعداد 1076 تک پینچ گئی ہے۔
مہر خبررساں ایجنسی نےامریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ عراق جنگ میں امریکی فوجیوں کی ہلاکتیں4404 ہو گئیں،جبکہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی ہلاکتوں کی تعداد 1076 تک پینچ گئی ہے۔
امریکی وزارت دفاع پینٹاگن کے مطابق افغانستان میں 2001سے امریکی جارحیت کے بعدسے اب تک امریکی فوجیوں کی ہلاکتیں1076ہوگئیں جن میں 791فوجی مخالفانہ حملوں میں مارے گئے جب کہ285دیگر کارروائیوں میں ہلاک ہوئے۔ 2003سے عراق پر امریکی جارحیت کے بعد4404فوجیوں میں سے3486مخالفانہ حملوں جب کہ918فوجی دیگر کاروائیوں میں ہلاک ہوئے۔ان ہلاکتوں میں 13امریکی شہری بھی شامل ہیں۔

جنداللہ محمولی پارٹی نہیں ہے کہ ہلاکت سے ختم ہو جاے


جنداللہ کا امیرعبدالمالک جان حفظہ اللہ نے ایرانی عدالت میں کہا کہ جنداللہ ایک ایسا محمولی پارٹی نہیں ہے کہ ہلاک یا جیل اور پکڑنے سے ختم ہو جاے بلکہ یہ ایسا تنظیم ہے کہ دن بہ دن انشاءاللہ مظبوط ہوتا رہے گا -----جنداللہ کے جانساروں نے تمام مسلمانوںسے گزارش کی ہے کہ امیر صاحب نے جیل میں جتنے غلط بیانات دیے ہیں یہ سب آپ لوگ جانتے ہیں کہ جانی شکنجہ کی وجہ سے دی ہیں یہ بیانات ہمیں قبول نیہں ہیں آپ سب جانتے ہیں کہ ایرانی حکومت کتنا ظلم کرتے ہیں امیر صاحب ایک ایسا شخص ہے میں اور آپ سب لوگ بانتے ہیں کہ امیر صاحب نشہ نہیں کرتا اور مشرکوں کے خلاف بات کرتا نہ جانے یہ حرامی شیعہ حکومت کیا کیا ظلم کرتے ہیں

دنیا میں غم ہوتا ہے دین میں غم نیہں ہوتا--------

امیر صاحب کے جیل ہونے سےفدای کم نیہں ہوتا

صحابہ کرام سے محبت نہیں کر سکتے ہو کم ازکم گستاخی مت کر لو


اس جمعے کے خطبے میں خطیب اہل سنت زاہدان مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم نے فضائل صحابہ کرام خاص طور پر خلفائے راشدین اور خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہم کے فضائل مناقب کے حوالے سے گفتگو کی۔
قرآنی آیت «محمد رسول الله والذین معه أشداء علی الکفار رحماء بینهم تراهم رکعا سجدا یبتغون فضلا من الله و رضواناً» کی تلاوت کرتے ہوئے انہوں نے کہا انبیاء علیہم السلام کے بعد افضل لوگ صحابہ کرام ہیں اور بڑے سے بڑے اولیاء، فقہاء و محدثین سمیت کوئی بھی شخص ایک ادنی صحابی کی برابری بھی نہیں کرسکتا۔ خلفائے راشدین صحابہ کرام میں سب سے افضل وبرتر تھے جن کے خاص مقام کا دیگر صحابہ بھی معترف تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص توجہات بھی خلفائے راشدین پر تھیں، اس کی وجہ ان کی قرابت نہیں بلکہ ان کا فضل وکمال اور اعلی روحانی مقام تھی۔انہوں نے مزید کہا اسلام سے قبل اور بعد کی تاریخ خلفائے راشدین جیسے خیر خواہ اور امانت دار امراء پیش نہیں کرسکتی۔ ان کا سارا مشغلہ اسلام کی تبلیغ واشاعت اور انسانیت کو کفر، شرک اور ظلم کی تاریک کھائیوں سے نجات دلانا تھا۔ عدل وانصاف کی فراہمی کو اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے۔خلفائے راشدین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح سادہ زیستی کو ترجیح دیتے تھے، عام بادشاہوں اور حکام کی طرح زندگی نہیں گزارتے تھے، انہوں نے اپنی ساری جائیدادیں اور مال اللہ کی راہ میں خرچ کیا، شاندار کاخوں کے بجائے محقر اور سادہ گھروں میں رہے، رعیت کی رسائی ان عظیم ہستیوں تک بلا رکاوٹ تھی، دنیا کے حکمرانوں کو سمجھنا چاہیے کہ حضرت علی اور عوام کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں تھی۔حضرت شیخ الاسلام دامت برکاتہم نے زور دیتے ہوئے کہا جس جمہوریت اور آزادی کا نعرہ آج کل لگایا جاتاہے اور اس کا دفاع کیا جاتاہے یہ خلفائے راشدین کے سنہری دور کی آزادی وعدل کے مقابلے میں ہیچ ہے۔ وہ کمال کو پہنچے ہوئے تھے، ذاتی اغراض ومفادات اور دنیاوی خواہشات سے بالاتر ہوکر انسانیت کی خیرخواہی، عدل وانصاف کی فراہمی، اسلام ومسلمانوں کی خدمت اور لوگوں کو ظالم بادشاہوں کے نرغے سے نجات دلانے کے لیے دن رات محنت وکاوش کرتے تھے۔ خلفائے راشدین کی نظریں ہرگز روم وایران کے خزانوں پر نہیں تھیں۔بات آگے بڑھاتے ہوئے خطیب اہل سنت زاہدان نے خلیفہ اول حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خصوصیات وفضائل پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا جمہور اور اکثر مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق آپ افضل واعلم صحابی تھے بلکہ امت محمدیہ میں آپ سے زیادہ کوئی فضیلت والا اور صاحب علم ہے ہی نہیں۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنی وفات سے پہلے حکم صادر فرمایا مسجد النبی سے ملنے والے سارے دریچے بند کیے جائیں سوائے حضرت ابوبکر رضي الله تعالى عنه کے گھر کا دریچہ۔ آج بھی مسجد النبی کی توسیع کے باوجود مشرقی حصے میں دروازہ رسول اور مغرب میں ابوبکر صدیق رضي الله تعالى عنه کے مکان کا دروازہ موجود ہے۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے ابوبکر صدیق رضي الله تعالى عنه کے بارے میں فرمایا کسی شخص کا مجھ پر ایسا احسان نہیں جس کا بدلہ میں نہ دے چکاہوں سوائے ابوبکر کے جس کے احسان کا بدلہ میں نہیں دے سکتا۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے یہ بھی کہا کہ اللہ تعالی کے سوا اگر میں کسی کو دلی دوست (خلیل) بناتا تو ضرور ابوبکر کو اپنا خلیل منتخب کرتا۔ لیکن اللہ میرا خلیل ہے اور ابوبکر میرا دوست اور دینی بھائی ہے۔ نبی کریم صلى الله عليه وسلم وفات سے پہلے اپنی حیات میں ابوبکر کو امام منتخب فرمایا اور صحابہ کرام نے آپ کے اقتدا میں نماز ادا کی۔جب عائشہ کے گھر میں حضرت رسول اکرم صلى الله عليه وسلم کا وصال ہوا اور ابوبکر کو اطلاع ملی تو آپ فوراً عائشہ کے گھر پہنچ گئے۔ آپ صلى الله عليه وسلم کے چھرہ مبارک پر ایک کپڑا رکھا ہوا تھا۔ آپ نے کپڑا اٹھا کرکہا: زندگی اور موت کے بعد آپ پاک وخوشبو تھے، اللہ تعالی ایک سے زائد مرتبہ آپ کو موت نہیں دے گا۔ ابوبکر سے بڑھ کر کوئی رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو نہیں جانتا تھا۔صحابہ کرام عشق کی حد تک نبی کریم صلى الله عليه وسلم سے محبت کرتے تھے۔ آپ کی خبر وفات صحابہ پر بجلی بن کر گری۔ ابوبکر رضي الله تعالى عنه نے مسجد کا رخ کیا تو عمر فاروق تلوار نکال کر کہہ رہے تھے: "جو یہ کہے گا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا انتقال ہوا ہے اس کی گردن اڑادوں گا۔ آپ کا وصال نہیں ہوا ہے! آپ معراج پ گئے ہیں۔"حضرت ابوبکر نے عمر کو مخاطب کرکے کہا: بیٹھ جاؤ! پھر منبر پر چڑھ کر آپ نے خطبہ دیا اور اس آیت کی تلاوت کی: «و ما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل أفإن مات أو قتل انقلبتم علی أعقابکم» محمد ایک نبی تھے جن سے قبل بھی کچھ انبیاء گزرے تھے، کیا اگر ان کا انتقال ہوجائے یا وہ قتل کردیے جائیں تو پھر تم لوگ دین سے پھر جاؤگے؟ پھر ابوبکر رضي الله تعالى عنه نے کہا: جو شخص محمد کی عبادت کرتا تھا تو محمد کا انتقال ہوچکاہے اور جو اللہ کی عبادت کرتا ہے تو اللہ تعالی زندہ ہے اور اْسے موت نہیں آتی۔ سارے صحابہ کو حقیقت حال معلوم ہوئی اور جس آیت کی ابوبکر صدیق رضي الله تعالى عنه نے تلاوت کی تھی انہوں نے اس کا ورد شروع کیا اور اس طرح حقیقت مان گئے۔سقیفہ بنی ساعدہ میں بہ اجماع صحابہ، ابوبکر رضي الله تعالى عنه خلیفہ منتخب ہوئے۔ جب حضرت علی رضي الله تعالى عنه کو اطلاع ملی کہ ابوبکر خلیفہ مقرر ہوئے ہیں تو انہوں نے فرمایا: جس شخص کو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ہمارے دین (نماز کی امامت) کے لیے منتخب فرمایا ہم اسے اپنی دنیا کے لیے بھی قبول کرتے ہیں۔خلیفہ راشد حضرت صدیق اکبر کے فضائل کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے مزید کہا ابوبکر رضي الله تعالى عنه نے درخشان کارنامے سرانجام دیکر تاریخ میں زندہ وجاوید رہے۔ جب غار ثور میں ابوبکر قربانی کی داستانیں رقم کر رہے تھے تو آپ کو معلوم نہ تھا محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم حاکم بنیں گے اور ابوبکر ان کا خلیفہ ہوگا۔ جب علی رضي الله تعالى عنه آپ صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں تھے آپ کو معلوم نہیں تھا کہ وہ داماد رسول اور امیر المؤمنین بنیں گے۔ عمر وعثمان کو بھی پتہ نہیں تھا مستقبل میں کیا ہوگا۔ سب نے اللہ رب العزت اور حقیقت طلبی کے خاطر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم اور اسلام کی خدمت کی۔ حضرت شیخ الاسلام نے کہا میری نصیحت یہ ہے کہ تمام صحابہ کرام سے محبت کی جائے اور زندگی میں انہیں اپنا آئیڈیل بنانا چاہیے، ان کی پیروی کرنی چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ اگر کوئی شخص صحابہ کرام سے محبت نہیں کرسکتا کم از کم عداوت، بدزبانی اور گستاخی سے باز رہے۔ اگر میرا اور مجھ جیسے لوگوں کا بغض آپ کے دلوں میں ہو تو کوئی بات نہیں لیکن صحابہ، اہل بیت اور خلفائے راشدین کی نفرت اپنے دلوں میں نہ رکھیں۔آخر میں انہوں نے کہا میری خیرخواہانہ درخواست ہے کہ تمہارے دلوں میں پاک لوگوں کا بغض نہیں ہونا چاہیے جو ہماری ہدایت اور ایمان کا ذریعہ بنے۔ صحابہ نے اپنا سب کچھ آپ صلى الله عليه وسلم کے مشن پر قربان کردیا، ان سے محبت نہیں کرسکتے تو گستاخی بھی مت کرو۔ ان کی کامیابی کا راز اللہ کی عبادت وپیروی میں تھا اور ہماری مشکلات کی وجہ اللہ سے دوری ہے۔ اس لیے ہمیں ان کی سیرت کو اپنانا ہوگا۔

یکشنبه، خرداد ۰۹، ۱۳۸۹

لاہور:خاتون نے رکشہ میں ہی بچے کو جنم دیدیا


لاہور: لاہور کے علاقے فردوس مارکیٹ چوک میں ہسپتال جانے والی ایک خاتون نے رکشہ میں ہی بچے کو جنم دیدیا ۔ ماڈل کالونی گلبرگ کا رہائشی ایک پھل فروش محمد شاہد اپنی بیگم عاصمہ کو لے کر سروسز ہسپتال جارہا تھا کہ فردوس مارکیٹ چوک میں رکشہ پنکچر ہونے اور ٹریفک کے شدید رش کے باعث اس کو وہاں آدھا گھنٹے کی تاخیر ہوئی۔ اس دوران اس کی بیوی عاصمہ نے رکشہ میں ہی ایک بیٹے کو جنم دیا، پیدائش کے بعد زچہ بچہ دونوں صحتمند ہیں

طالبان کا افغان صوبے نورستان کے ضلع برگ متال پر قبضہ


کابل: طالبان نے افغان صوبے نورستان کے ضلع برگ متال پر قبضہ کرلیا، طالبان ترجمان ذبیح الله مجاہد کا دعویٰ ہے کہ ولیس کو بھاری جانی نقصان پہنچایاہے۔ افغان پولیس حکام کے مطابق کئی روز کی لڑائی کے بعد طالبان نے ضلعہ برگ متال کے پولیس ہیڈ کوارٹرز، ریڈیو اسٹیشن اور دیگر سرکاری عمارتوں پر قبضہ کرلیاہے۔ صوبائی پولیس کے سربراہ قاسم پیمان نے غیر ملکی خبر ایجنسی سے طالبان قبضے کی تصدیق کی۔ سرحدی پولیس حکام نے کہاکہ برگ متل میں پولیس ہیڈ کوارٹرز سے رابطہ منقطع ہوگیاہے۔ طالبان نے ریڈیو اسٹیشن پر قبضہ کرلیاہے۔ ادھر طالبان ترجمان ذبیح الله مجاہد نے غیرملکی ایجنسی کو ٹیلیفون پر بتایاکہ طالبان سے لڑنے والے اہلکاروں کے ساتھ علاقہ مقامی لشکر کو بھاری جانی نقصان پہنچایاہے

ایران کو بھروسے کی فضا قائم کرنی چاہیئے: اقوام متحدہ


اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ ایران کو یہ ثابت کرنے کے لیے مزید کوشش کرنی چاہیئے کہ اس کے جوہری پروگرام سے دنیا کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔
انہوں نے ایران پر زور دیا کہ وہ اپنی جوہری سرگرمیوں اور منصوبوں کے بارے میں وضاحت سے بتائے کیونکہ بقول ان کے ایران نے جس طرح اس معاملے کو سنبھالا ہے اس سے نہایت غیر یقینی کی فضا پیدا ہوگئی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے چیف، برازیل میں تقریر کررہے تھے۔ انہوں نے برازیل اور ترکی کی جانب سے ایران کے مسئلے پر ثالثی کرنے کے ارادے کا شکریہ ادا کیا۔
جرمن چانسلر آنگلا مرخیل نے بھی جمعرات کے روز ایران پر تنقید کی۔ اور کہا کہ ان کا ملک ایران کے خلاف نئی تعزیرات کی حمایت کرتا رہے گا کیونکہ بقول ان کے، ایران بدستور شفافیت دکھانے میں ناکام ہے۔

ایران طالبان کو ہتھیار اور تربیت دے رہاہے: جنرل میک کرسٹل


افغانستان میں اعلی ترین امریکی فوجی کمانڈر نے کہا ہے کہ ایسے واضح شواہد موجود ہیں کہ ایران ،اپنے جنگ زدہ پڑوسی ملک میں طالبان عسکریت پسندوں کو ہتھیار اور تربیت فراہم کررہاہے۔
جنرل سٹینلے میک کرسٹل نے اتوار کے روز کابل میں نامہ نگاروں سے کہا کہ پڑوسی ہونے کے ناطے افغانستان میں ایران کی دلچسپی قدرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات صحت مندانہ ہیں لیکن طالبان کی مدد سے منسلک سرگرمیاں غیر مناسب ہیں۔
نیٹو کے اعلیٰ ترین سویلین نمائندے مارک سیڈ ول نے ہفتے کےروز نامہ نگاروں سے کہا کہ موجودہ وقت آئندہ ہونے والے امن مذاکرات یا جرگہ اور قندھار کے گردونواح میں جاری فوجی کاررائیوں کی بنا پر افغانستان کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔

نفت شہر میں تیل کے کنویں میں آک لگنے سے 3 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں// آگ پر ابھی تک قابونہیں پایا جاسکا


قصر شیریں میں نفت شہر کے تیل کے 24 نمبر کنویں میں گیس دھماکے سے تین افراد جاں بحق اور 12 زخمی ہوگئے ہیں۔
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ایران کی قومی تیل کمپنی کی رپورٹ کے مطابق مقامی وقت کے مطابق آج صبح 6/30 منٹ پر نامعلوم وجہات کی بنا پر قصر شیریں میں نفت شہر کے تیل کے 24 نمبر کنویں میں گیس دھماکے سے تین افراد جاں بحق اور 12 زخمی ہوگئے ہیں۔ دھماکے کے بعد تیل کے کنویں میں آگ کے شعلے بھڑک اٹھے جن کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے اور آگ پر قابو پانے والا عملہ ابھی تک آگ کو بجھانے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے قصر شیریں ایک اعلی اہلکار کے مطابق آگ کے دیگر کنوؤں تک پھیلانے کو کوئي خطرہ نہیں ہے اور آگ پر قابو پانے کی کوششیں جاری ہیں۔

ایٹمی میزائلوں سے لیس اسرائیلی آبدوز ایرانی حدود میں داخل


یروشلم : جدید ایٹمی میزائلوں سے لیس اسرائیلی آبدوز ایرانی سمندری حدود میں داخل ہوگئی ہے، اسرائیلی فوج کا کہناہے کہ آبدوز ایران، حزب اللہ اور شام کے ممکنہ حملوں کا ناکام بنائے گی۔ برطانوی اخبار کی رپورٹ کے مطابق جدید ایٹمی میزائلوں اور دیگر جنگی آلات سے لیس یہ آبدوز نہ صرف ایران کے اسرائیل پر ممکنہ حملے کو ناکام بنائیں گی۔ بلکہ ایرانی پاسداران انقلاب، جوہری پروگرام اور ایرانی سرگرمیوں کے متعلق معلومات بھی حاصل کریں گی۔ ایرانی سمندری حدود کے قریب پہنچنے والی اسرائیلی آبدوز فلاٹیلا سیون کے کمانڈر کرنل او نے برطانوی اخبار کو بتایا کہ وہ اسرائیلی سمندری حدود سے دور اسالٹ مشن پر ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی تین آبدوزیں خلیج میں ایرانی سمندری حدود کے قریب مستقل موجود رہیں گی۔

قادیانیوں کی عبادت گاہ پر حملہ


لاہور (ایجنسیاں) جدید ترین اسلحہ‘ خودکش جیکٹوں‘ دستی بموں سے لیس حملہ آوروں نے گڑھی شاہو اور ماڈل ٹاون میں قادیانیوں کی عبادت گاہوں پر بیک وقت فائرنگ اور دستی بموں سے حملے کر کے 85 افراد کو ہلاک اور 150 کو زخمی کر دیا جبکہ 10 کی حالت تشویشناک ہے‘ دونوں عبادت گاہوں پر حملوں میں صرف دو تین منٹ کا فرق تھا۔
صوبائی دارالحکومت 3 گھنٹے سے زائد عرصہ تک حملہ آوروں کے نرغے میں رہا۔ دونوں حملوں میں مرنے والوں میں جماعت احمدیہ لاہور کے امیر ریٹائرڈ سیشن جج شیخ منیر احمد‘ جماعت احمدیہ ماڈل ٹاون کے امیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر احمد اور پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان کے بھائی اعجاز اللہ خان‘ تحریک احمدیہ کے امیر اعجاز نصراللہ اور 3 پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ تھانہ ماڈل ٹاون اور تھانہ گڑھی شاہو میں سنگین ترین جرائم کی دفعات کے تحت مقدمات درج کر لئے گئے ہیں۔کالعدم تحریک طالبان کے القاعدہ الجہاد پنجاب ونگ نے دونوں حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔حملہ آوروں نے عبادت گاہوں میں دو ہزار سے زائد افراد کو ڈھائی تین گھنٹے تک یرغمال بنائے رکھا‘ اس کے ساتھ ساتھ وہ فائرنگ کا تبادلہ کرتے رہے۔ حملہ آوروں نے دستی بم پھینکے اور بے دریغ فائرنگ کی۔ دو خودکش حملہ آوروں نے خود کو اڑا کر بھی متعدد افراد کو ہلاک کیا۔ پہلا حملہ ایک بجکر 38 منٹ پر گڑھی شاہو میں قادیانیوں کی مرکزی عبادت گاہ دارالذکر پر کیا گیا۔ حملہ آور گولیاں برساتے نہر کی طرف سے پیدل آئے۔ عبادت گاہ کے آگے تعمیر شدہ شیل کے پٹرول پمپ پر گولیاں برسائیں‘ پٹرول پمپ کا عملہ زمین پر لیٹ گیا اور حملہ آور سکیورٹی اہلکاروں پر قابو پا کر عبادت گاہ میں داخل ہو گئے۔ حملہ آور جن کی اصل تعداد 5 سے 7 بتائی جاتی ہے عبادت گاہ میں داخل ہوئے تو اس وقت مربی ناصر خطبہ دے رہا تھا۔ دہشت گردوں نے عبادت گاہ میں داخل ہو کر فائرنگ کی تو صحن میں موجود افراد باہر کی جانب بھاگے جن پر فائرنگ کر دی گئی۔ بعدازاں حملہ آوروں نے عبادت گاہ کے ہال میں داخل ہو کر فائرنگ کی اور دستی بم پھینکے۔ عینی شاہدین کے مطابق گرنیڈ کے 6 دھماکے ہوئے‘ زوردار فائرنگ بھی ہوئی۔ اس دوران عبادت گاہوں کے باہر پٹرول پمپ کے ساتھ کھڑی گاڑیوں کے قریب موٹر سائیکل میں دھماکہ ہوا جس سے وہاں کھڑی تمام گاڑیاں بری طرح تباہ ہو گئیں۔فائرنگ کی اطلاع ملتے ہی ایس پی سول لائنز ڈاکٹر حیدر اشرف اور ایس پی مجاہد سکواڈ جہانزیب نذیر موقع پر پہنچے تو عبادت گاہ کی چھت اور مینار پر موجود حملہ آوروں نے فائرنگ کر دی۔ ایس پی ڈاکٹر حیدر اشرف اور جیپ میں موجود ڈرائیور اور گن مین ٹانگ اور بازو میں گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے۔ ایس پی مجاہد سکواڈ جہانزیب نذیر کی جیپ تباہ ہو گئی مگر ان کے ماتحت بچ گئے۔ پولیس بکتر بند گاڑیوں کی مدد سے عبادت گاہ کے قریب پہنچے اور حملہ آوروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی رہی۔تین بج کر آٹھ سے دس منٹ کے دوران دو زوردار دھماکے ہوئے۔ ذرائع کے مطابق یہ دھماکے دو خودکش حملہ آوروں کے تھے جنہوں نے ان کے درمیان خود کو اڑا لیا تھا۔ دھماکوں کے بعد بھی پولیس اہلکاروں کی فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا۔ 4بجے تک وقفے وقفے سے پولیس فائرنگ کرتی رہی جبکہ پولیس کے اسلحہ سے مختلف آوازیں بھی سنائی دیتی رہیں۔ اس دوران عبادت گاہ سے زخمیوں اور لاشوں کو نکالنے کا عمل شروع ہو گیا۔ 4بجکر 5منٹ پر پولیس اہلکاروں نے اندھا دھند ہوائی فائرنگ کی۔ ہزاروں گولیاں ہوا میں چلائی گئیں جس سے عبادت گاہ کے باہر جمع ہونے والے پولیس‘ ٹریفک پولیس‘ سفید پوش افراد‘ ریسکیو‘ امدادی ٹیموں کا عملہ اور عوام جانیں بچانے کے لئے اندھا دھند بھاگ پڑے۔ لوگ ایک دوسرے کو دھکے دیتے جائے وقوعہ سے دور جانے کی کوشش کرتے رہے.آپریشن مکمل ہوتے ہی عبادت گاہ کے دروازے کے باہر ایمبولینس گاڑیوں کی قطاریں لگ گئیں اور زخمیوں اور مرنے والوں کی منتقلی شروع ہو گئی۔ زخمیوں اور ہلاک ہونے والے قادیانیوں کے عزیز و اقارب اور ورثا اس دوران عبادت گاہ کے سامنے اکٹھے ہو گئے‘ ان مشتعل افراد نے عبادت گاہ کے سامنے گھیرا ڈال کر اخبار نویسوں اور فوٹو گرافروں کو دور دھکیل دیا۔ زخمیوں کو بھی میڈیا سے دور رکھا جاتا رہا مگر اس دوران پولیس نے عمارت کو ”کلیئر“ نہیں قرار دیا اور ایلیٹ فورس کے جوان اپنے سربراہ کی سربراہی میں ”عمارت کلیئر“ کرتے رہے۔ عمارت کو ساڑھے چھ بجے کے بعد کلیئر کیا گیا۔عینی شاہدین کے مطابق حملہ آوروں کی عمریں 18 سے 22 برس تھیں اور انہوں نے اپنی کمر پر بیگ پہنے ہوئے تھے۔ گڑھی شاہو میں ہونے والی اس واردات میں 1122 کے مطابق 33 افراد مارے گئے جبکہ آزاد ذرائع کے مطابق مرنے والوں کی تعداد 50 کے لگ بھگ ہے۔ ماڈل ٹاون 87 سی میں قائم قادیانیوں کی عبادت گاہ ”بیت النور“ میں موٹر سائیکل پر سوار خودکش جیکٹ پہنے تین حملہ آور ہینڈ گرنیڈ اور جدید آتشی اسلحہ سے لیس ہو کر وہاں آئے۔ عینی شاہدین کے مطابق وہاں پر تعینات سکیورٹی اہلکاروں نے دوڑ کر جانیں بچائیں۔ جب حملہ آور عمارت میں داخل ہو گئے تو پھر سکیورٹی اہلکاروں نے باہر سے جوابی فائرنگ کی۔ عمارت میں داخل ہو کر حملہ آور اندھا دھند فائرنگ کرتے رہے اور عبادت گاہ کے مرکزی ہال میں دو دستی بم کے دھماکے کئے۔ حملہ آور اندھا دھند وہاں موجود افراد کو فائرنگ کا نشانہ بناتے رہے۔ لوگوں نے دو حملہ آوروں کو قابو کر لیا۔ اسی اثناء میں باہر موجود حملہ آور نے اپنی موٹر سائیکل کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیا جس کے نتیجہ میں وہاں کھڑی دیگر چار موٹر سائیکلیں اور کار نمبر ایل ایکس ایکس 914 تباہ ہو گئی۔ حملہ آور نے دھماکے کے بعد فائرنگ کرتے ہوئے وہاں سے دوڑ لگا دی۔ سامنے سے ایک نج ٹی وی چینل کی گاڑی کوریج کے لئے آ رہی تھی جس پر اس حملہ آور نے دوڑتے ہوئے فائرنگ کی جس سے گاڑی کی ونڈ سکرین و سائیڈ شیشے ٹوٹ گئے۔ حملہ آور نے فائرنگ کر ایک شہری کو بھی زخمی کیا اور فائرنگ کرتے ہوئے وہاں سے دوڑ کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ اتنے میں پولیس و قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار‘ ریسکیو 1122‘ ایدھی و دیگر امدادی ٹیمیں موقع پر پہنچ گئیں۔ پویس‘ ایلیٹ فورس اور کوئیک رسپانس فورس کے جوانوں نے عمارت کو گھیرے میں لے لیا اور اندر داخل ہو گئے جہاں دونوں حملہ آوروں کو قابو کر کے وہاں سے نامعلوم مقام پر تفتیش کے لئے منتقل کر دیا۔ درجنوں قادیانی نوجوانوں نے عمارت کے داخلی دروازے کو اپنے حصار میں لے لیا اور بعض پولیس افسران و اہلکاروں کو بھی اندر نہ جانے دیا۔ صرف پولیس و قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکار اندر گئے اور کرائم سین محفوظ کیا۔ میڈیا کو بھی عمارت میں داخلہ کی اجازت نہ دی گئی اور نہ ہی انہیں وقوعہ کی جگہ کا معائنہ کرنے کی اجازت ملی۔