دوشنبه، خرداد ۱۰، ۱۳۸۹

کابل کی پلُ چرخی جیل


کابل کی پلُ چرخی جیل ایک عرصے تک ظلم اور ناانصافیوں کے بارے میں بدنام تھی۔
سابق سویت یونین کے دور میں پراسرار گمشدگیوں اور پھانیسوں کے بارے میں بدنام زمانہ اس جیل میں گزشتہ تیس دہائیوں سے افغان حکومت کے دشمن یا خطرناک مجرموں کو رکھا جاتا ہے۔
افغان تاریخ کے اس پرآشوب دور میں اس قید خانے کی موٹی موٹی دیواروں کے پیچھے سزا یافتہ قاتلوں اور منشیات کے سمگلروں کے ساتھ طالبان بھی ایک بڑی تعداد میں قید ہیں۔
افغانستان کی اس سب سے بڑی جیل میں جہاں ملک میں قیدیوں کی ایک تہائی تعداد قید ہے، ہمیں جانے کا موقع فراہم کیا گیا۔
اکثر طالبان قیدیوں کو جیل کے انتہائی سکیورٹی والے حصہ میں رکھا جاتا ہے جو قیدخانے کی بلائی منزل پر قائم ہے اور یہ حصہ ’دی زون‘ کے نام سے مشہور ہے۔
ہمیں اس حصہ میں جانے کا موقع بھی ملا جس میں صرف القاعدہ اور طالبان سے تعلق رکھنے والے قیدی پابندِ سلاسل ہیں۔
اس حصے میں جانے کے لیے جب ہم سیڑھیاں چھڑ رہے تھے تو ہماری رہنمائی کرنے والے محافظ ہمیں مستقل خبردار کرتے رہے کہ یہ قیدی خطرناک بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔
جیل کے طویل برآمدے سے صرف تلاوت اور چولہے پر چھڑی چائے کی کیتلیوں میں ابلتے ہوئے پانی کی ملی جلی آوازیں گونج رہی تھیں۔
اس جیل میں آٹھ فٹ چوڑی اور آٹھ فٹ لمبی کوٹھریوں میں کہیں دو اور کہیں تین قیدی بند تھے۔
جیل میں طالبان بھی موجود ہیں
بہت سے قیدی ان کوٹھریوں میں آلتی پالتی مارے بیٹھے تھے اور تقریباً سب کے ہاتھوں میں تسبیاں تھیں۔ ایک قیدی جس نے مجھے بتایا کہ انھیں موت کی سزا سنائی گئی ہے سفید اور سرخ دانوں کی ایک تسبیی پھیر رہے تھے جس کے دانوں پر مسلمانوں کی سب سے مقدس جگہ خانہ کعبہ کا عکس تھا۔
اس حصے میں بہت کم ملاقاتیوں کو آنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ اس لیے بہت سے قیدی بات کرنے کے مشتاق تھے۔بہت سے قیدیوں کا کہنا تھا کہ افغانستان میں اس وقت تک جنگ بند نہیں ہو سکتی جب تک یہاں غیر ملکی فوجی موجود ہیں۔
بشیر احمد قنات بھی ان ہی قیدیوں میں شامل تھے تاہم وہ زیادہ شدت پسند خیالات کے حامل تھے۔ کالی اور سفید پگڑی پہنے ہوئے بشیر احمد قنات نے ہمیں اپنی کوٹھری میں آنے کو کہا۔
انھوں نے کہا کہ کوئی مسلمان اور کوئی افغان اپنی سرزمین پر عیسائیوں اور یہودیوں کی موجودگی برداشت نہیں کرے گا۔ حامد کرزئی کو بھی اب ان سے مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
میں نے اس سے طالبان سے مذاکرات کی نئی حکمت عملی پر بات کی۔ ’ہم افغان بھائی بھائی ہیں اور ہمیں ایک دوسرے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ افغان آئین کے تحت ملک میں شریعت نافذ کی جانی ہے۔قید میں بھی طالبان اپنے مقصد کے بارے میں بہت واضح ہیں۔
جنرل عبدل بہزودی اور جیل کے ڈائریکٹر جنرل نے اپنے دفتر میں وہ الماری دکھائی جو موبائل فون، خنجر اور مختلف قسم کے آلات سے بھری ہوئی تھی۔جنرل عبدل بہزودی نے کہا کہ ان موبائل فون کے ذریعے طالبان دنیا بھر میں کالیں کرتے تھے جن میں پاکستان کا شہر کوئٹہ بھی شامل تھا جہاں سے طالبان قیادت خود کش حملوں کی ہدایت دیتی ہیں۔
اب جیل میں سکیورٹی غیر معمولی حد تک بڑھا دی گئی ہے۔ ہر ملاقاتی کو جیل میں داخل ہونے سے قبل پانچ مرتبہ تلاشی لی جاتی ہے۔
ہم نے گارڈز کو قید خانے میں داخل ہونے والے ملاقاتیوں کی تلاشی لیتے ہوئے دیکھا۔ گارڈز کھانے کے ڈبووں اور ملاقاتیوں کے جوتوں کی ایڑیوں کو بھی دیکھ رہے تھے کہ کہیں کوئی موبائل فون یا ان کی سمیں یا نوٹ چھپا کر نہ لے جا رہے ہوں۔
گزشتہ نومبر میں اس قید خانے میں ہنگامے میں کئی قیدی ہلاک اور زخمی ہو گئے تھے۔ حکام کا کہنا تھا کہ ان ہنگاموں میں سات قیدی ہلاک ہوئے تھے۔ تاہم طالبان ہلاک ہونے والی کی تعداد کہیں زیادہ بتاتے ہیں۔
جیل میں مدرسہ بھی موجود ہے
قیدیوں کا کہنا تھا کہ وہ اپنے حقوق کے لیے احتجاج کر رہے تھے۔جیل حکام کا کہنا تھا کہ طالبان اور دوسرے قیدیوں کو کہیں زیادہ آزادی حاصل ہے۔
جیل کی سب سے اوپر والی منزل میں ہماری ملاقات طالبان کمانڈر صلاح الدین سے ہوئے جسے دوسرے قیدی اپنا لیڈر تسلیم کرتے ہیں۔
انتہائی پراعتماد یہ شخص میدان جنگ میں اپنے کارناموں کی کہانیاں سنانے لگا۔وہ ان کی تفصیلات میں جائے بغیر یہ کارنامے گنوانے لگا۔ گارڈز کی موجودگی کی اسے کوئی پریشانی نہیں تھی۔ وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا تھا کہ معاملات اب بھی اس کے ہاتھ میں ہیں۔
گارڈز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس نے کہا کہ یہ ہمیں جیل میں رکھنے کے ذمہ دار ہیں، لیکن اندر ہمیں کس طرح رہنا ہے یہ وہ خود طے کرتے ہیں۔قیدی افغان ججوں کی بدعنوانی کی شکایت کرتے ہیں۔
جیل کے سربراہ بہزودی نے بتایا کہ زون ڈی میں طالبان نے اپنی عدالت بھی بنا رکھی اور وہاں پر انھوں نے اسلامی امارات پاکستان کا نشان بھی لگا رکھا ہے۔
غروب آفتاب کے بعد وہ جیل کے برآمدے میں جماعت کرواتے ہیں۔جیل میں قیدیوں کی مذہبی درس و تدریس کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ طالبان اپنے بلاک میں خود تدریسی جماعتوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ صلاح الدین نے ہمیں ان جماعتوں میں آنے کو کہا۔
بہت سے قیدی اس سے قبل کابل کے شمال میں واقع بگرام کے امریکی اڈے پر قائم جیل میں بھی رہ چکے تھے۔ انھوں نے وہاں جسمانی تشدد کی شکایت کی۔ البتہ پل چرخی جیل میں انھیں کوئی شکایت نہیں تھی۔
انھیں صرف یہ شکایت تھی کہ اکثر قیدیوں کو ان کی سزا کی مدت پورے ہونے کے باوجود رہا نہیں کیا جاتا۔
پل چرخی جیل میں اب قیدیوں کی اصلاح اور بحالی پر زور ہے۔ بیرونی امداد سے جیل کی عمارت میں توسیع کی جا رہی ہے تاکہ میں جیل میں زیادہ قیدیوں کی گنجائش پیدا کی جا سکے۔
جیل کی دیواروں اور واچ ٹاورز کے سائے سے پرے قیدیوں کو بہت سے مراعات حاصل ہیں جن میں جسمانی ورزش کی کلاسوں سمیت تفریحی کے اور بھی مواقع دیئے جاتے ہیں۔
بہت سے قیدی تیز دھوپ میں اپنی کمر پر لوشن لگا کر بیٹھے رہتے ہیں۔
طالبان سے مذاکرات کی حکمت عملی پر اگر عملدرآمد ہوا تو اس قید میں موجود بہت سے قیدیوں کو ایک دن رہائی نصیب ہو جائے گی۔

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر