دوشنبه، خرداد ۱۰، ۱۳۸۹

کراچی ساحل اور بگٹی قہوہ


پاکستان کے سب سے بڑے اورغریب پرور شہر کراچی میں ایسے کئی افراد اپنا گزارہ روزانہ اجرت کی بنیاد پر کرتے ہیں جو اپنے ہی ملک میں بعض سیاسی وجوہات کی بناء پر دربدر ہوئے ہیں۔
ان میں صوبہ بلوچستان سے دربدر ہونے والے بگٹی شامل ہیں جو سابقِ فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں شروع کیے جانے والے فوجی آپریشن کی وجہ سے اپنے ہی ملک کے اندر دربدری پر مجبور ہوئے ہیں۔
ان بگٹیوں میں سے ایک درجن کے قریب لوگ کراچی کے ساحل کلفٹن پر اپنے علاقے کا مشہور قہوہ فروخت کرتے ہیں جو تفریح کے لیے آنے والے لوگوں میں کافی مقبول ہوچکا ہے، عام لوگ اسے بلوچستان کا قہوہ یا سبز چائے سمجھ کر شوق سے پیتے ہیں۔
’کلفٹن سی ویو‘ پر قہوہ فروش بگٹیوں میں سے ایک غلام نبی بگٹی نے بتایا ہے کہ ان کے گروپ کے افراد شام چار بجے کے قریب ساحل سمندر پر پہنچنا شروع ہوجاتے ہیں اور رات کو دو بجے تک وہاں موجود رہتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کا قہوہ بلا کسی تفریق یا تعصب کے پسند کیا جاتا ہے۔
چار سال قبل نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد وہ اپنے علاقوں سے دربدر ہونے کے بعد بلوچستان سے ملحقہ صوبہ سندھ کے اضلاع جیکب آباد، سکھر سے ہوتے ہوئے خیرپور اور سانگھڑ تک پہنچے مگر انہیں کہیں ایسا روزگار میسر نہ ہوسکا جو کلفٹن کراچی پر ملا ہے
غلام نبی بگٹی
غلام نبی بگٹی اپنے کاندھوں پر ایک لکڑی کی مدد سے قہوہ، پانی اور لیموں سمیت قہوے کا تمام سامان اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چار سال قبل نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد وہ اپنے علاقوں سے دربدر ہونے کے بعد بلوچستان سے ملحقہ سندھ کے اضلاع جیکب آباد، سکھر سے ہوتے ہوئے خیرپور اور سانگھڑ تک پہنچے مگر انہیں کہیں روزگار میسر نہ ہوسکا۔
غلام نبی بگٹی کا کہنا ہے کہ وہ ڈیرہ بگٹی سے آگے دشوار گزار پہاڑی سلسلے سنگسیلا کے رہائشی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ جب نواب اکبر بگٹی کے بنگلے پر فوجی کارروائی ہوئی تو انہوں نے سنگسیلا سے اپنے چھ آٹھ پڑوسی خاندانوں کے ہمراہ نقل مکانی شروع کی۔
غلام نبی نے بتایا ہے کہ اونٹوں اور گدھوں کی مدد سے چالیس پچاس افراد کا قافلہ پٹ فیڈر کے علاقے تک پہنچا اور وہاں سے انہیں ٹرک مل گئے جس کی مدد سے وہ صوبہ سندھ کے علاقے سانگھر تک پہنچ گئے۔
غلام نبی کے ساتھ ایک اور دربدر بگٹی میر ہزار بھی موجود ہیں۔ وہ اپنے جیسے دیگربگٹیوں کے ساتھ ساحل سمندر کے قریب کلفٹن کے دو بنگلوں کے چوکیداروں کے پاس رہائش پذیر ہیں۔انہوں نے بتایا کہ وہ دوپہر کو کلفٹن پر پہنچ جاتے ہیں مگر ان کا روزگار شام کے بعد شروع ہوتا ہے اور رات گئے تک جاری رہتا ہے۔

سی وی کلفٹن پر قہوہ فروش دربدر بگٹی اپنے آبائی علاقوں اور پہاڑی سلسلے کو بہت یاد کرتے رہتے ہیں
کلفٹن سی وی پر قہوہ فروش بگٹیوں کے اہل خانہ سانگھڑ، خیرپور اور سکھر جیسے دور دراز علاقوں میں رہائش پذیر ہیں جبکہ وہ قہوہ فرخت کرنے کے پندرہ دنوں کے بعد اپنے اہل خانہ سے ملنے ان علاقوں کا سفر کرتے ہیں۔
باریش بزرگ غلام نبی اور میر ہزار اپنے ساتھ موبائل فون رکھتے ہیں مگر کراچی کی عام سماجی زندگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ بزرگ غلام نبی کو شکایت ہے کہ ساحل سمندر پر آنے والے جوڑے بقول ان کے ’انگریزوں سے بھی آگے نکل چکے ہیں۔‘
یہ لوگ بلوچستان میں اپنے آبائی علاقوں میں ہونیوالے فوجی آپریشن اور نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت جیسے موضوعات بات کرنے سےگریز کرتے ہیں۔
وہ کراچی میں قہوہ فروخت کرنے آئے ہیں اگر سیاسی باتیں شروع کیں تو انہیں خدشہ رہتا ہے کہ وہ یہاں سے بھی دربدر نے کیے جائیں گے
غلام نبی بگٹی
سیاسی باتیں سن کر وہ خاموش اور مشکوک نظروں سے دیکھتے رہتے ہیں اور آخر میں تبصرہ کرنے سے معذرت کر لیتے ہیں۔ بلوچستان میں جاری سیاسی کشیدگی کے ان کی زندگی پر برے اثرات تو عیاں ہیں مگر وہ خود اپنی زبان سے ان حالات پر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔
غلام نبی نے ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ وہ کراچی میں قہوہ فروخت کرنے آئے ہیں اگر سیاسی باتیں شروع کیں تو انہیں خدشہ ہے کہ وہ یہاں سے بھی نکلنا پڑ جائیگا۔ انہوں نے بتایا کہ ابتدائی دنوں میں وہ کلفٹن پر بعض مزدور پیشہ افراد کے تعصبانہ رویے کا شکار رہے مگر بڑی مشکلوں سے انھوں نے ان تعصبات کا سامنا کیا اور انہیں نظرانداز کیا ہے۔
سی وی کلفٹن پر قہوہ فروش دربدر بگٹی اپنے آبائی علاقوں اور پہاڑی سلسلے کو بہت یاد کرتے رہتے ہیں۔وہ سنگسیلا کی پہاڑوں کو کراچی سے بہتر سمجھتے ہیں۔ان کے بقول اگر بلوچستان میں لڑائی ختم ہوجائے تو وہ ایک دن بھی اپنے پہاڑوں سے دور نہیں رہ سکیں گے۔ وہ جلد سے جلد اپنے آبائی گھر واپس چلے جائیں گے مگر انہیں وہ دن قریب نظر نہیں آرہا ہے۔
قہوہ فروش بگٹیوں کا کہنا ہے کہ وہ صرف امید ہی کر سکتے ہیں کہ بلوچستان کے حالات بہتر ہوجائیں اور وہ واپس اپنے علاقوں کی طرف جائیں جہاں وہ فوجی آپریشن سے قبل نسبتاً بہتر زندگی گزار رہے تھے۔

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر