پنجشنبه، فروردین ۱۹، ۱۳۸۹

’بلوچستان حکومت ناکام ہو چکی ہے


گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی نے صوبے میں اغواء برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب تک جاگیرداروں اور نا اہل لوگوں کو پھانسی پر نہیں چڑھایا جاتا ہے اس وقت تک حالات میں بہتری ممکن نہیں ہے۔
گورنر نےصوبائی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت عوام کے جان و مال کی تحفظ میں ناکام ہو چکی ہے اور اسمبلی میں بیٹھے وزراء اور اراکین نااہل ہیں۔
بدھ کو گورنر ہاؤس کوئٹہ میں وکلاء اور صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئےگورنر بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی نے کہا کہ عوام کی جان و مال کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہونی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں چوری، ڈکیتی، راہزنی ،اغواء برائے تاوان ،ٹارگٹ کلنگ اور دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے واقعات سے صاف ظاہر ہے حکومت اور پولیس انتظامیہ فرائض انجام نہیں دے رہے ہیں۔
نواب ذوالفقار مگسی نے کہا کہ پولیس اور انتظامیہ سب کچھ جاننے کے باوجود جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی۔کتنے پولیس اہلکار مارے جاچکے ہیں لیکن پولیس انتظامیہ اپنے اہلکاروں کا بدلہ تک نہیں لے سکی ہے ۔ آئی جی پولیس کا کہنا ہے کہ جب بھی کسی کوگرفتار کیا جاتا ہے تو اوپر سے کوئی نہ کوئی فون آجاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے جیسے لوگ‘ اپنی گرفت کو مضبوط رکھنے کےلئے نہ صرف جرائم پیشہ عناصر کو پناہ دیتے ہیں بلکہ ان کا بھر پور استعما ل کرتے ہیں تاکہ معاشرے پر ہماری گرفت مضبوط رہے۔ انہوں نے کہا کہ نظام کو بدلنے کے لیے تعلیم یافتہ طبقے پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ فرسودہ قبائلی نظام کے خاتمے اور معاشرے کو باشعور بنانے کےلیے اپنا کردار ادا کریں۔
انہوں نے کہا کہ صوبے میں امن و امان کی بحالی کے لیے محض ایف سی کی تعیناتی کافی نہیں جب تک ٹارگٹ کلنگ ،اغواء برائے تاوان ، بدامنی، چوری، ڈکیتی، راہزنی اور لینڈ مافیا کے خلاف ایکشن نہیں لیا جائےگا صورتحال بہتر نہیں ہوگی۔
گورنر بلوچستان نے کہا کہ اگر کوئی میرے بھائی کو مارے گا تو ردعمل میں میں بھی اس کو ماروں گا لیکن اتنے پولیس اہلکار مارے گئے پولیس نے کوئی بدلہ نہیں لیاجو باعث تشویش ہے حالانکہ پولیس بھی بلوچستان کا ایک قبیلہ ہے اور قبائلی حوالے سے ان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ کا بدلہ لےـ
اغواء برائے تاوان و ٹارگٹ کلنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سب کو علم ہے کہ سپریم کورٹ کے وکیل افتخار الحق ایڈووکیٹ کو بیس روز قبل کس نے اغواء کیا ہے لیکن اس کے باوجود اس کی بازیابی کےلئے اقدامات نہیں کئے جا رہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر اغواء کنندگان نے مغوی کی بازیابی کیلئے تاوان کا تقاضہ کیا ہے تو اس کیلئے میری جیب حاضر ہے ۔ پیکج کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں بعض قوم پرست جماعتوں نے اپنے رویئے میں تبدیلی لاتے ہوئے بات چیت کا راستہ اپنایا پیکج کو تسلیم کیا بلکہ اس پر دستخط بھی کئے جو خوش آئند ہے۔
گورنر بلوچستان نے کہا کہ جو لوگ آزادی کی بات کرتے ہیں وہ مذاکرات نہیں کرنا چاہتے انہوں نے پیکج کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ آزادی سے کم کسی بات پر راضی نہیں ہونگے۔

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر