چهارشنبه، فروردین ۱۸، ۱۳۸۹

لاکربی پر مسافر طیارے کی تباہی کا حکم سابق ایرانی صدر رفسنجانی نے دیا



ایرانی پاسداران انقلاب کے سابق رکن اور دس سال برس تک امریکا کے مرکزی محکمہ سراغ رسانی (CIA) کے لئے جاسوسی کرنے والے ایک اہلکار رضا کھلیلی نے دعوی کیا ہے کہ ایران کے سابق صدر ہاشمی رفسنجانی نے لاکربی پر پرواز کے دوران امریکی مسافر جہاز کو نشانہ بنانے کا حکم صادر کیا تھا۔ لاکربی کیس میں لیبیا کے ایک باشندے عبدالباسط المقراحی کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ مسٹر کھلیلی نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ انہیں ایران کی خفیہ ایٹمی تنصیبات کے بارے میں اہم معلومات ہیں۔ ان خیالات کا اظہار ایک دوہرے ایجنٹ رضا کھلیلی کی کتاب "دھوکا دہی کا وقت" میں کیا گیا ہے۔ یہ کتاب حال ہی میں امریکا میں شائع ہوئی ہے۔ رضا کھلیلی نامی پاسداران انقلاب کے سابق رکن نے اس کتاب میں سی آئی اے کے لئے دس سال تک جاسوسی کے اپنے قصے بیان کئے ہیں۔کتاب میں پاسدران انقلاب کے رکن اور سی آئی اے کے ایجنٹ کے طور پر کھلیلی نے اپنی دوہری زندگی کی داستان بہت تفصیل سے بیان کی ہے۔ انہوں نے اس مدت میں امریکا کو فراہم کئے جانے والے اہم رازوں سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔فری یورپی ریڈیو کی فارسی سروس "صدائے فردا" سے اپنے خصوصی انٹرویو میں مسٹر کھلیلی نے انکشاف کیا کہ "اپنے وطن کو دھوکا دینا آسان کام نہیں"۔ انہوں نے ملکی مفاد کے خلاف اپنی سرگرمیوں کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ" میں نے ایران میں شہری آزادیوں کے فقدان، جیلوں میں حکومت مخالفین کے خلاف تشدد اور سیاسی کارکنوں کی پھانسیوں اور آمریت کے خلاف ردعمل میں ایران مخالف سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا۔"انہوں نے دعوی کیا کہ ایران کے سابق صدر ہاشمی رفسنجانی نے لاکربی پر امریکی مسافر طیارے کو تباہ کرنے کا حکم صادر کیا تھا۔ ایران کا یہ سابق فوجی ان دنوں کیلیفورنیا میں مقیم ہے۔ انہوں نے کتاب ایک قلمی نام سے تحریر کی ہے اور اس میں مختلف واقعات کی تاریخیں اور ان کے مرکزی کرداروں کے نام جان بوجھ کر تبدیل کئے ہیں تاکہ اس کی شناخت ظاہر نہ ہو سکے۔مسٹر کھلیلی اپنی کتاب میں رقمطراز ہیں کہ "امریکی سی آئی اے نے انہیں ایران میں "اسلامی انقلاب" کے دو سال بعد اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔ میں 1995 تک ایرانی پاسداران انقلاب میں امریکا کے جاسوس کے طور پر کام کرتا رہا۔ کچھ عرصہ کے لئے میں نے یہ کام چھوڑ دیا، تاہم نائن الیون کے بعد میں نے ایک مرتبہ پھر امریکا کے لئے جاسوسی شروع کر دی۔"ریڈیو پریزنٹر نے ان سے سوال کیا کہ آپ ایک ایسے ادارے سے منسلک تھے کہ جو آمریت پر فخر کرتا تھا؟ آپ نے کیونکر اتنا بڑا یو ٹرن لیا؟ کھلیلی نے جوابا کہا کہ میں جب امریکا سے ایران واپس آیا تو میرے جذبات بھی بہت سے دوسرے ایرانی طلبہ سے مختلف نہ تھے۔ مجھے امید تھی کہ ایرانی عوام کو آزادی ملے گی اور میں اپنے ملک کی خدمت کر سکوں گا۔ اسی جذبے سے سرشار ہو کر میں نے پاسدران انقلاب میں شمولیت اختیار کی کیونکہ انہیں تعلیم یافتہ افراد کی اپنی صفوں میں ضرورت تھی۔ تاہم جلد ہی اس انقلابی فوج کی حقیقت مجھ پر واہ ہونا شروع ہو گئی، جو نعرے لگا کر یہ نوجوانوں کو اپنی صفوں میں شامل کرتے تھے، حقیقت میں صورتحال مکمل طور پر اس کے برعکس تھی۔ مخالفوں پر تشدد اور ان کا قتل پاسداران انقلاب کا عملی شعار تھا، میرے پاس ایسی صورتحال میں سوائے خیانت کے اور کوئی آپشن نہیں تھا۔ اسی طریقے میں پاسداران انقلاب میں شمولیت کے گناہ کا کفارہ ادا کر سکتا تھا۔کھلیلی نے پاسداران انقلاب میں اپنا رینک بتانے سے انکار کرتے ہوئے صرف اتنا بتایا کہ وہ پاسداران انقلاب کے کمپوٹرائزڈ کلاسیفائیڈ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتے تھے، اس لئے ان کے پاس انتہائی اہم راز ہوتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے امریکا کو ایران کے ایسے ایٹمی پلانٹ کے بارے میں بتایا کہ جس سے متعلق واشنگٹن کے پاس کسی قسم کی معلومات نہیں تھیں۔ایران کے بارے میں امریکی پالیسی میں تبدیلی سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے رضا کھلیلی نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان کچھ ایسے چینل کام کر رہے ہیں کہ جن کی وجہ سے ایران کو فریقین کے درمیان صلح کی امید ہے۔ صدر براک اوباما کی انتظامیہ کی جانب ایران کو دیئے جانے پیغامات کی روشنی میں تہران کو واشنگٹن کے ساتھ مصالحت کی امید ہے۔
رضا کھلیلی کا کہنا تھا کہ ایرانی میں دینی حکومت اگر نیوکلئیر بم بنانے میں کامیاب ہو گئی تو کوئی طاقت ان کا مقابلہ نہیں کر سکے گی۔ انہوں نے کہا کہ ایران دنیا کے خواب غفلت سے فائدہ اٹھانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جب پاسداران انقلاب کو ایٹمی بم بنانے کا خیال آیا تو میں اس وقت تک اس فورس کا رکن تھا۔ ہم نے ایک سال بعد پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کے بانی ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے رابطہ کیا۔ ہمیں سینٹری فیوج کے نقشے اور دوسری معلومات فراہم کی گئیں۔کھلیلی نے واضح کیا کہ ان کی کتاب سی آئی اے کی اجازت سے شائع کی گئی۔ کتاب کے ایک ایک صفحے پر بیان کردہ معلومات کا امریکا کی خصوصی ٹاسک فورس نے باریک بینی سے جائزہ لیا ہے۔ یاد رہے کہ امریکا اور ایران کے درمیان انٹیلی جنس کی جنگ کے آغاز کے بعد ایران کے معروف ایٹمی سائنسدان شھرام امیری امریکا میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ ایرانی فوج کے جنرل علی رضا عسکری، ایران کی ان مشہور فوجی شخصیات میں شامل ہیں کہ جہنوں نے مغرب میں پناہ لی۔

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر