پنجشنبه، اسفند ۲۷، ۱۳۸۸

اللہ تعالی نے حضرت یوسف کو بھی جیل کیا تھا یہ اللہ کا امتحان ہے اپنے دوستوں پر


لو پیہن لی پاوں میں زنجیر اب

اور کیا دکھلاے گی تقدیر اب

خود ہی چل کر آگیا زندان تک کیا کرو گے خواب کی تحبیر اب

اے مشرکوں جو تیرے باتوں میںتھی دل تلک پہنچی ہے وہ تاسیر اب

ہاے ایک آہٹ نے پھر چونکا دیا بو لنے والی تھی تصویر اب

ٹھیک میرے دل ہی پر آگ لگے آخری ترکش میں ہے جو تیر اب

اور کچھ پانے کی حسرت ہی نہیں بس مل گہی شہادت کی جا گیراب

کیہ دو ان حسرتوں سےکہیںاور جابسیں اتنی جگہ کہاں ہے دل دا‏غدار میں

عمر درازمانگ کے لاے تھے چر دن دو آرزوں میں کٹ گی اے امیر صاحب تیرے انتظار میں

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر