پنجشنبه، آذر ۰۴، ۱۳۸۹

ہم راہ جہاد میں جائیں گے


اللہ کے رسول نے اپنے وقت کی سپرپاور عیسائیوں کی رومی قوت سے ٹکرانے کا فیصلہ کیا اور تبوک میں جانے کی تیاریاں شروع ہوگئیں - سفر لمبا اور انتہائی دشوار تھا سواریوں کی قلت تھی اور سواری کے بغیر اللہ کے رسول مجاہدین کو ساتھ لے جا نہیں رہے تھے اب جن مسکینوں کے پاس سواریاں نہ تھیںان کا اصرار برابر جاری تھا کہ ہم تو راہ جہا دمیں جائیں گے-
مگر جوانہیں مدینے میں ہی چھوڑ دینے کا فیصلہ ہو اتو قرآن نے ان کی حالت کا نقشہ یوں کھینچا ہے
اذَا ماتَوکَ لِتَحمِلَھُم قُلتَ لاَ اجِدُ مَآ احمِلُکُم عَلَیہِ تَوَلَّوا وَاعیُنُھُم تَفِیضُ مِنَ الدَّمعِ حَزَنًا الاَّیَجِدُوا مَا یُنفِقُونَ
جب وہ ( مجاہدین ) تیرے پاس آتے ہیں تاکہ ان کو سواری مہیا کردے ( مگر جب )آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ میر ے پاس تو سواری نہیں ہے کہ جس پر میں تم کو سوار کردوں تو وہ واپس اس حال میں پلٹتے ہیں کہ ان کی آنکھیں حزن و ملال سے آنسو بہائے چلی جاتی ہیں اس وجہ سے کہ وہ ایسی کوئی شئے ( رقم) نہیں پاتے کہ وہ اسے خرچ کریں ۰ اور سواری کا بندوبست کرلیں)
ان کا رونا ہی اللہ کو اس قدر پسند آیا کہ اس کا قرآن میں ذکر کردیا اور صحابہ میں یہ لوگ ” البکائین“ یعنی رونے والوں کے نام سے معروف ہوگئے اور صحیحین کی روایت کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک کے سفر میں ان کے بارے میں صحابہ کو بتلایا :
تم اپنے پیچھے ( مدینے میں ) کچھ ایسے لوگوں کو چھوڑ آئے ہو کہ تم نے جو مسافت طے کی جو مال خرچ کیا ہے اور جس وادی کو پار کیا ہے ان سب اعمال میںوہ تمہار ے ساتھ ہیں ایک روایت میں ہے کہ وہ اجر میں تمہارے ساتھ شامل ہیں
یہ حقیقت ہے اس میں کوی شک نہیں ایسے واقعہ مجاہدین کے میں نے اپنے آنکھوں سے دیکھا ہے ۔
یہ جنداللہ کے شیر مجاہدین میں اس دن جب فتح المبین کے کے لیے تیاری ہوی تو امیر سردارمجاہد شہید عبدالمالک جان نے چند مجاہدین کے نام لے کر سفر کو تیار ہونے کا کہا تو بقایا ساتھی جو پیھچے رہ جانے والے تھے تو سب نے گڑ گڑھا کر رونا شروع کیا اور ہر ایک کہنے لگا کہ امیر صاحب مجھے ساتھ لے چلو لیکن یہ سفر ایسا تھا کہ 30 مجاہدین بھی بہت زیادہ تھا۔ امیر صاحب نے پہلے 20 مجاہدین کو تیار ہونے کو کہا لیکن ہمارے مجاہد بھاہیوں نے بہت رو کر اسرار کیا تو امیر صاحب نے ان کی تعداد 30 کیا ۔ باقی پیھچے رہنے والے مجاہدین کو صبر اور ٹہرنے کے لیے راضی کیا۔ آگے اللہ پاک کا نصرت دیکھو کہ کیا ہو گا۔
جب مجاہدین سفر کو روانا ہوا تو وہاں سے ایک رہنما (جو راستہ دیکھاتاہے)بھی ساتھ لے چلے اس رہنما کا نام شکاری لال جان سیانی تھا۔یہ شکاری پہلے سے ایرانی جاسوس تھا لیکن مجاہدین کو معلوم نہیں تھا۔ اس شیطان نے ایرانی حکومت کو سفر کا سارا قصہ راستے میں سیٹ لایٹ فون کے ذریعے سے آگاہ کیا تھا۔
جنداللہ کے مجاہدین کو یہ معلوم نہیں تھا کہ شکاری نے ان کا سودا ایران کے حکومت طے کیا ہے۔ ادھر مشرکین ایران نے 3000 ہزار مشرک فوجی کمانڑو اور بلوچ مرتدین کے ساتھ راستے میں پہاڑوں کے اوپر مورچے زن تھے کہ اچانک شیر مجاہد شہید امیر عبدالمالک جان اپنے مجاہدین بھاہیوں کے ہمرہ اسی پہاڑوں کے درمیان پھہنچا ۔ اس وقت شکاری ملعون نے مجاہدین کو چھوڑ کر بھاگ گیا تھوڑی دیر بعد ایرانی مشرکوں نے چار طرف سے اندھا دھند گولی چلای اور کھچ دیر نہ گزری کہ 7 ہیلی کاپٹر بھی آیا اور دو 16F نے بھی اس جنگ میں حصہ لیا ۔ لیکن اللہ پاک نے مجاہدین کے نصرت کی اور 300 سے زیادہ فوجی مردار ہوے تھے ۔اور مجاہدین کے 2 جوان شہید ہوا اور 4 مجاہدین معمولی سا زخمی ہوا تھا۔ شکاری بھی پکڑا گیا اور جہنم وصل ہوا اور مجاہدین واپس اپنے ٹھکانے پر پھہنچ گہے۔ یہ ہے اللہ کا نصرت اور مجاہدین کی جہاد کے لیے تیاری
ابوحضرت عمر بلوچ

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر