چهارشنبه، آبان ۱۹، ۱۳۸۹

عراق کی عیسائی اقلیت پرحملوں کاسلسلہ جاری


عراق کےدارالحکومت بغدادمیں عیسائی آبادی والے علاقوں میں یکےبعددیگرے بم دھماکوں اورمارٹروں کےحملوں میں چارافرادہلاک اورچھبیس زخمی ہوگئے ہیں۔

عراقی حکام کےمطابق بغدادکے عیسائی آبادی والے مختلف علاقوں میں بدھ کی صبح چھے بجے سے رات آٹھ بجے تک مسیحیوں کے مختلف گھروں میں دومارٹرگولے اوردس گھریلو ساختہ بم پھینکےگئےہیں۔

پولیس اوراسپتال ذرائع نے بم دھماکوں میں چارافرادکی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔

گذشتہ ہفتے بغدادہی میں واقع ایک چرچ پرمسلح افراد کے حملے میں اٹھاون افرادہلاک ہوگئے تھے۔

القاعدہ کے جنگجووں نے اس حملے کی ذمے داری قبول کی تھی اورانہوں نے ملک میں عیسائیوں پرمزیدحملوں کی دھمکی دی تھی۔

فوری طورپریہ واضح نہیں ہواکہ ہلاک ہونے والےتمام افرادعیسائی تھےیاکوئی اور۔

منگل کی رات بھی بغدادکے مغربی علاقے میں عیسائیوں کے تین خالی گھروں میں بم پھینکے گئے تھے۔

تاہم ان دھماکوں میں کوئی شخص زخمی نہیں ہواتھا۔

دس روزقبل بغداد کے ایک چرچ پرحملےمیں چوالیس عیسائی،دوپادری اورسات سکیورٹی اہلکارہلاک ہوگئے تھے۔

حملہ آورجنگجوٶں نےکہاتھاکہ انہوں نے یہ کارروائی اسلام قبول کرنےوالے دوافرادکی رہائی کے لیے کی تھی جنہیں مصرکے قبطی چرچ نے یرغمال بنارکھاہے۔

عراقی مسیحیوں کے ایک سنئیررہ نما آرچ بشپ آرژنسیوس داٶدنے اختتام ہفتہ پربی بی سی سے بات کرتے ہوئےکہاتھاکہ''مسیحیوں کوجنگ زدہ ملک چھوڑجاناچاہیے یاپھرالقاعدہ کے ہاتھوں اپنی موت کاانتظارکرناچاہیے۔

اگروہ یہیں رہےتوانھیں ایک ایک کرکےختم کردیاجائےگا''۔

درایں اثناءعراق کے متحارب سیاسی دھڑوں کےقائدین نئی حکومت کی تشکیل کے لیےکسی حتمی معاہدے تک پہنچنےکی غرض سے بدھ کومسلسل تیسرےروزمذاکرات کررہے ہیں۔

گذشتہ دوروزمیں بات چیت میں وہ کسی نتیجے پرنہیں پہنچ سکےاوران میں شراکت اقتدارکے فارمولے پراختلافات برقرارہیں۔

بیشترتجزیہ کاروں کاکہناہےکہ عراق میں موجودہ سیاسی خلاء سےجنگجوگروپ فائدہ اٹھارہےہیں اوروہ اپنےحملوں میں سکیورٹی فورسزکے اہلکاروں کےعلاوہ عام شہریوں کوبھی نشانہ بنارہےہیں۔

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر