دوشنبه، اسفند ۰۳، ۱۳۸۸

سعودی خواتین کو وکالت کی اجازت


سعودی عرب میں ایک ایسا قانون بنانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے جس کے تحت خواتین وکلا پہلی بار عدالتوں میں مقدمات کی پیروی کر سکیں گی۔
سعودی عرب کے وزیرِ انصاف محمد العیسیٰ کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ شاہ عبداللہ کے اس منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد ملک کے لیے ایک نظام قانون تشکیل دینا ہے۔
یہ قانون جلد ہی جاری کر دیا جائے گا اور اس کے تحت خواتین وکلا کو عدالتوں میں طلاق اور بچوں کی سپردگی سمیت عائیلی مقدمات کی عدالتوں میں پیروی کا اختیار مل جائے گا۔
اس وقت سعودی عرب میں خواتین وکلا پیچھے رہ کر صرف سرکاری اور عدالتی دفاتر میں کام کرتی ہیں۔
نئی قانون سازی کے بعد سعودی خواتین کو گواہوں کی موجودگی کے بغیر بھی بہت سے کاموں کو مکمل کر نے کی اجازت حاصل ہو جائے گی۔
عرب نیوز کے مطابق وزارتِ قانون کے اہلکار عثمان المرداس کا کہنا ہے کہ نئے قانون کے نفاذ کے بعد خواتین کو یہ حق بھی حاصل ہو جائے گا کہ وہ کسی گواہ کی موجودگی کے بغیر صرف اپنی شناخت دکھا کر بھی تصدیقی امور کی تکمیل کر سکیں گی۔
مردانہ سرپرستی کے نظام کے تحت سعودی خواتین کو نامحرم مردوں سے الگ رہنا ہوتا ہے۔
ان کے لیے لازی ہے کہ وہ عام مقامات پر کہیں مکمل اور کہیں کم پردہ کریں۔ انہیں ڈرائیونگ کی اجازت نہیں ہوتی اور پینتالیس سال سے کم عمر کی خواتین کو سفر کے لیے مردوں سے اجازت لینی ہوتی ہے۔
اسی طرح انہیں ملازمتوں کے لیے بھی مردوں کی اجازت پر انحصار کرنا ہوتا ہے۔
لیکن اب بہت سے تبدیلیاں لائی جا رہیں ہیں، جن میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اکیلی عورتیں ہوٹل میں قیام کر سکیں گی۔
گزشتہ سال ایک ایسے سینئر عالم دین کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی اس یونیورسٹی پر تنقید کی وجہ الگ کر دیا تھا جس میں مخلوط تعلیم کی شروع کی گئی ہے۔
مذکورہ عالم شیخ سعد نے کہا تھا کہ کسی بھی یونیورسٹی میں مخلوط تعلیم یا مخالف جنسوں کا ملنا بدی اور گناہِ عظیم ہے۔

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر