سه‌شنبه، اسفند ۰۴، ۱۳۸۸

ایران: مظاہرے اور جھڑپیں


تہران سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق انتخابی نتائح کے خلاف احتجاجی مظاہروں پر پابندی کے باوجود بدھ کو کچھ مظاہرین پھر سڑکوں پر نکل آئے اور ان کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئی ہیں۔
عینی شاہدین کے مطابق یہ جھڑپیں دارالحکومت تہران میں پارلیمان کی عمارت اور بہارستان سکوائر کے قریب ہوئی ہیں۔
ایران میں بی بی سی کی رپورٹنگ پر عائد پابندیوں کی وجہ سے ادارہ ان رپورٹوں کی تصدیق نہیں کر سکا ہے۔
احتجاج کے یہ تازہ واقعات ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے اس بیان کے چند گھنٹے بعد ہوئے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ صدارتی انتخاب کے نتائج برقرار رہیں گے اور اس معاملے میں وہ کسی دباؤ میں نہیں آئیں گے۔
عینی شاہدین نے خبر رساں ادارے ’اے پی‘ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بدھ کے احتجاج میں پولیس نے مظاہرین کو لاٹھیوں سے مارا اور ان پر اشک آور گیس پھینکی۔
بارہ جون کے صدارتی انتخاب کے بعد صدر احمدی نژاد کو بھاری اکثریت سے فاتح قرار دیا گیا تھا تاہم ان کے مخالف امیدواروں نے انتخابی نتائج کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا اور حکومت پر دھاندلی کا الزام لگایا تھا۔ اس کے بعد کئی دن تک احتجاجی مظاہرے کیے گئے اور اس احتجاج میں کم سے کم سترہ افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔
وینیزؤیلا کے صدر ہیوگو شاوتیز نے بدھ کو غیر ملکی حکومتوں پر ایران کی سیاست میں مداخلت کرنے کا الزام لگایا تھا۔
جمعہ کو آیت اللہ خامنہ ای نے خطبے میں صدر احمدی نژاد کی حمایت کی تھی اور کہا تھا کہ اب مظاہرین کو سڑکوں پر نہیں نکلنا چاہیے اور اس معاملے کو قانون کے ذریعے حل کیے جانا چاہیے۔ تاہم ان کی تقریر کے بعد بھی کئی احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔
احتجاج کے اہم رہنما اور انتخاب میں صدر احمدی نژاد کے مخالف امیدوار میرحسین موسوی کو کئی دنوں سے نہیں دیکھا گیا ہے تاہم ان کی ویب سائٹ پر ان کی اہلیہ کے ایک پیغام میں کہا گیا ہے کہ احتجاج کا سلسلہ جاری رکھنا ضروری ہے۔ حسین موسوی کی اہلیہ کے مطابق ان کے شوہر کے اخبار کے پچیس افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
ایک اور مخالف امیدوار مہدی کروبی نے بدھ کو برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا تھا کہ وہ صدر احمدی نژاد کو تسلیم نہیں کرتے۔ انہوں نے اپنی ویب سائٹ پر ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ وہ حکومت اور انتخاب دونوں کو فبول نہیں کرسکتے۔

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر