دوشنبه، اسفند ۰۳، ۱۳۸۸

پاک ایران راہداری یکم سے شروع


پاکستان اور ایران نے فیصلہ کیا ہے کہ تفتان کے مقام پر دونوں ممالک کے درمیان تجارتی گیٹ کو یکم مارچ سے دوبارہ کھول دیا جائے گا۔
ایران نے گزشتہ سال اکتوبر میں صوبہ سیستان بلوچستان میں ہونے والے ایک خودکش حملے کے بعد پاکستان کے ساتھ اپنی سرحد بند کر دی تھی جس میں ایران کے کئی اعلی فوجی افسروں سمیت چالیس سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اتوار کو ایران سے ملحقہ پاکستان کے سرحدی شہر تفتان میں پاکستان اور ایران کے اعلیٰ حکام کے درمیان ایک اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ پندرہ روزہ راہداری کے اجراء پر بھی یکم مارچ سے عملدرآمد شروع ہوگا۔
اجلاس میں ضلعی رابطہ آفیسر چاغی ڈاکٹر محمداسلم محمد شہی، کمانڈنٹ خاران رائفلزنوکنڈی کرنل نوید اختر نے پاکستان کی نمائندگی کی جبکہ ایران کی جانب سے سرحدی انتظامیہ کے سربراہ کرنل حسن شجاعی نے سات رکنی وفد کے ہمراہ شرکت کی۔
بلوچستان اور ایران کے سرحد پر رہنے والے لوگوں کی آپس میں رشتہ داریاں ہیں، وہ ایک دوسرے کے غم اور خوشی میں شرکت کرنے آتے جاتے ہیں لیکن اس صورتحال میں بلوچستان کے لوگوں کو ایران کے مقابلے میں سرحد پر موجود پاکستان کی سیکورٹی فورسز سے زیادہ پریشانی ہوتی ہے
یاد ر ہے کہ ایران نےگزشتہ سال اٹھارہ اکتوبر کو ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان میں ہونے والے ایک خودکش حملے کے بعد تفتان نے مقام پر پاکستان کے ساتھ سرحد بند کردی تھی جس کے باعث بلوچستان کے ضلع چاغی میں نہ صرف اشیاء صرف کی قیمتوں میں اضافہ ہوا بلکہ تفتان میں زیرو پوائنٹ پر کام کرنے والے ہزاروں مزدوروں کو بھی بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑا۔
تفتان کے سابق ناظم جلیل ہمدانی نے بی بی سی کوبتا یا کہ ضلع چاغی میں اسی فیصد لوگوں کا روز مرہ کی اشیاء کے لیے نحصار ایران پر ہے اور ایران کی جانب سے سرحد کے بندش کے باعث نہ صرف تفتان سے لوگوں نے ہجرت شروع کی بلکہ ایران سے ملحقہ بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں اشیاء صرف کے قیمتوں میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
دوسری جانب بلوچستان کے اکثر سیاسی جماعتوں نے پاکستان کے ساتھ دوبارہ سرحد کھولنے پر ایرانی حکومت کی تعریف کی ہے اس سلسلے میں نیشنل پارٹی سے سیکرٹری اطلاعات جان محمد بلیدی کا کہنا ہے کہ ایرانی حکومت نے ہمشہ راہداری کوقبول کیا ہے لیکن پاکستان کی جانب سے سرحد پر موجود سکیورٹی والے بغیر کسی رشوت کے کسی کو ایران آنے جانے کی اجازت نہیں دیتے۔
جان محمد بلیدی نے کہا کہ بلوچستان اور ایران کے سرحد پر رہنے والے لوگوں کی آپس میں رشتہ داریاں ہیں، وہ ایک دوسرے کے غم اور خوشی میں شرکت کرنے آتے جاتے ہیں لیکن اس صورتحال میں بلوچستان کے لوگوں کو ایران کے مقابلے میں سرحد پر موجود پاکستان کی سیکورٹی فورسز سے زیادہ پریشانی ہوتی ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان ایک ہزار کلو میٹر سے زیادہ طویل سرحد ہے اور ایران نے گزشتہ سال ایران میں ہونے والے کئی تخریبی کارروائیوں کی ذمہ داری جنداللہ نامی سنی تنظیم پر عائد کرتے ہوئے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ بلوچستان میں ان کے خلاف کارروائی کی جائے لیکن پاکستان نے ہر بار کہا کہ بلوچستان میں جنداللہ نامی تنظیم کا وجود ہی نہیں ہے۔

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر