جمعه، تیر ۱۱، ۱۳۸۹

داتا دربار میں ہونے والے دو خود کش بم دھماکوں میں بیالیس افراد ہلاک اور دو سو زخمی


جمعرات کی شام کو ہزاروں کی تعداد میں زائرین ملک کے مختلف علاقوں سے داتا دربار پر حاضری کے لیے لاہور آتے ہیں اور جس وقت یہ خودکش حملے ہوئے اس وقت بھی زائرین کی ایک بڑی تعداد دربار کے اندر اور اس کے اطراف میں موجود تھی۔

لاہور سے بی بی سی کی نامہ نگار نے بتایا کہ ایس ایس پی آپریشنز کے دفتر نے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد بیالیس سے زیادہ بتائی ہے۔


داتا دربار پر خود کش دھماکوں کے بعد سیاسی اور مذہبی رہنماؤں نے بے گناہ انسانوں کی ہلاکت پر رنج و غم کا اظہار کیا ہے اور واقعہ کی شدید مذمت کی ہے۔


کچھ تنظیموں نے جمعہ کو سوگ منانے کا بھی اعلان کیا ہے۔ تحفظِ ناموسِ رسالت نامی تنظیم نے لاہور میں خود کش دھماکوں کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا ہے۔


دوسری جانب وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے جمعہ کے روز داتا دربار میں ہونے والے بم دھماکوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے تحقیقاتی اداروں پر واضح کردیا ہے کہ اس واقعے میں ملوث افراد کو گرفتار کرنا ان کی اولین ذمہ داری ہے جس میں کوئی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔


مذہبی اتحاد کی سترہ جماعتوں کا اجلاس جامعہ نعیمیہ میں جاری ہے جس کے بعد جمعہ کی نامز کے بعد داتا دربار میں خودکش حملوں کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی جائے گی۔


داتا دربار میں ہلاک ہونے والوں میں بڑی تعداد مردوں کی ہے۔


اس سے قبل حکومت پنجاب نے داتا دربار میں فجر کی نماز پڑھنے کی اجازت دی تھی جس کے بعد نمازیوں کو دربار سے نکالنے کے لیے پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔


اس وقت جمعہ کی نماز کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ تاہم شہر بھر میں عبادت گاہوں پر سکیورٹی مزید سخت کر دی گئی ہے۔


لاہور کے بڑے تجارتی مراکز جن میں مال روڈ اور اردو بازار شامل ہیں جمعہ کے روز بند ہیں۔


پولیس نے بتایا ہے کہ داتا دربار سے ایک دھڑ ملا ہے جس کے بارے میں خدشہ ہے کہ یہ خودکش حملہ اور کا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دھڑ سے معلوم ہوتا ہے کہ حملہ آور کم عمر کا تھا۔


حکومت پنجاب نے داتا دربار میں فجر کی نماز پڑھنے کی اجازت دی تھی جس کے بعد نمازیوں کو دربار سے نکالنے کے لیے پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔


لاہور کے سی سی پی او اسلم ترین نے بتایا کہ ایک خودکش حملہ آور بھاگتا ہوا داتا دربار میں داخل ہوا ہے جس کو روکنے کی کوشش کی گئی اور اس کے پیچھے لوگ بھاگے۔


اس کے چند ہی لمحوں بعد دوسرا خودکش حملہ آور اسی گیٹ سے داخل ہو کر احاطے میں گیا ہے جہاں اس نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا دیا۔


’پہلے حملہ آور کو تلاشی کے لیے روکا بھی گیا لیکن وہ بھاگتا ہوا داخل ہوا۔


اس کو روکنے کے لیے رضا کار جو تلاشی لے رہے تھے وہ بھی اس کے پیچھے بھاگے جس کے بعد خودکش حملہ آور نے دھماکہ کر دیا۔‘


سکیورٹی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ان خودکش حملہ آوروں کی نشاندہی مشکل تھی۔


’جمعرات کا دن تھا اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ حاضری کے لیے آئے ہوئے تھے۔


حملہ آوروں نے سفید شلوار قمیض اور ہری پگڑی باندھ رکھی تھی جس کی وجہ سے ان کی نشاندہی مشکل تھی۔‘


پولیس کا کہنا ہے کہ ایک دھماکہ دربار کے تہہ خانے میں واقع لنگر خانے میں ہوا جبکہ دوسرے خود کش بمبار نے خود کو مزار سے تیس فٹ کے فاصلے پر اڑایا۔


داتا دربار پر ایک رضا کار محمد ناصر نے بتایا ’دھماکوں کے بعد ایک اندوہناک منظر دیکھنے کو ملا۔ ہر جگہ لاشیں پھیلی پڑی تھیں اور لوگ رو رہے تھے۔‘

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر