پنجشنبه، تیر ۲۴، ۱۳۸۹

صحابہ کرام پراعتراض کرنے والے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پراشکال کرتے ہیں، شیخ الحدیث حسین پور


بلوچستان کے مایہ ناز دینی ادارہ ’’عین العلوم گشت‘‘ سراوان کے شیخ الحدیث ومہتمم مولانا محمدیوسف حسین پور نے انیسویں تقریب ختم بخاری کے موقع پر دارالعلوم زاہدان کے دورہ حدیث کے طلبہ کو صحیح بخاری کی آخری حدیث کادرس دیا۔


قرآنی آیت: ’’فاِن آمنوا بمثل ماآمنتم بہ فقداھتدوا۔۔۔‘‘ کی تلاوت کرتے ہوئے انہوں نے شرکائے دورہ حدیث کو انتہائی فکرانگیز اور ناقابل فراموش نصائح کیے۔


انہوں نے کہا قرآن وحدیث کی تعلیم حاصل کرنا اور ان کے رموز کو سمجھنا مختصرمدت میں ناممکن ہے، اس کیلیے طویل وقت کی ضرورت ہے۔


مولانامحمدیوسف دامت برکاتہم نے حضرت موسی وخضرعلیہما السلام کے واقعے کو تفصیلا بیان کرنے کے بعد نئے فارغ التحصیل طلبہ کو مخاطب کرکے فرمایا جن طلبہ کی آج دستاربندی ہورہی ہے انہیں معلوم ہوناچاہیے کہ وہ ابھی علم کے دروازے تک پہنچے ہیں اور انہیں آخری دم تک طلب علم کی کاوش جاری رکھنی چاہیے۔


صحیح بخاری کی آخری حدیث کی قرائت کرتے ہوئے شیخ الحدیث مولانامحمدیوسف نے اس بارے میں کہا بزرگوں اور صلحاء سے منقول ہے کہ ہروہ شخص جو ورزانہ صبح شام ایک سومرتبہ ’’سبحان اللہ وبحمدہ، سبحان اللہ العظیم‘‘کا وردکرے اللہ تعالی اس کے گناہوں کو معاف فرمادے گا۔


انہوں نے مزید کہا حدیث نبوی ہے:

’’ترکت فیکم الثقلین لن تضلوا ما اَن تمسکتم بہما من بعدی، کتاب اللہ وسنتی‘‘ سو فہم دین کیلیے پہلے قرآن مجیدہے پھراحادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔


ان کے بعد صحابہ کرام کے اقوال واعمال معیار بنتاہے۔

اس لیے جس طرح حدیث پرعمل کرتے ہیں اسی طرح آثارصحابہ پربھی عمل کرناچاہیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جامع کمالات تھے؛ ظاہر سی بات ہے جتنا استاد صاحب کمال ہو اتناہی اس کے شاگرد صاحب کمال اور اونچے مقام کے کے مالک بنیں گے۔


مولاناحسین پورنے بات آگے بڑھائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے نبوت کادروازہ بندہوگیا۔


جیساکہ سرور کونین نے تصریح کرکے فرمایا: ’’اَنا خاتم النبیین ولانبی بعدی‘‘، (میں آخری نبی ہون اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔)


چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی تھے تو وحی اور ارشاد الہی کی روشنی میں آپ ص نے جاں نثار اور کامل درجے کے شاگرد تربیت فرمائی اور انہیں دین اسلام کی تعلیمات سے پوری طرح آشناکرنے کے بعد فرمایا:


’’بلّغوا عنّی ولو آیۃ‘‘،

([جو کچھ مجھ سے سیکھ گئے ہو] کو آگے پہنچاؤ، اگرچہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو)۔

اس لیے صحابہ کرام، ان کے بعد تابعین اور پھر تبع تابعین نے دعوت کا سلسلہ جاری رکھا اور مکمل طور پر دین اسلام کی تبلیغ کرکے اسے اگلی نسلوں تک منتقل کیا۔


لہذا تصریح ربانی: ’’فاِن آمنوا بمثل ماآمنتم بہ فقد اہتدوا واِن تولّوا فاِنّما ہم فی شقاش‘‘ کی رو سے صحابہ حق وحقیقت پرتھے اور ان کا ایمان اور طرز زندگی اگلی نسلوں کیلیے معیار ہے۔


ان کو اسوہ بناکر تبلیغ دین میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے۔مولانامحمدیوسف نے آخرمیں تصریح کرکے فرمایا اگر (العیاذ باللہ) صحابہ غلط تھے، حق پرنہیں تھے تو یہ مسئلہ ان کے مربی واستاد کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوں کی جانب لوٹتا ہے۔


یہ الزام انہی پر آئی گا۔

اس لیے یقین کے ساتھ جاننا چاہیے کہ صحابہ کرام کمال کو پہنچے ہوئے تھے جنہوں نے پوری دنیا میں اسلام کوپھیلایا اور اس کانام بلندکردیا۔

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر