جمعه، مرداد ۰۸، ۱۳۸۹

چست کپڑے بند، خواتین سیاہ لباس سے پورا جسم ڈھانپیں :یہودی علماءکا فتویٰ


بیت المقدس ( مانیٹرنگ ڈیسک ) یورپی ممالک خاص طور پر عیسائی مذہب کے پیروکار ملکوں میں برقعے پر پابندی کیخلاف مسلمانوں کے پیچھے یہودیوں نے بھی لبیک کہا ہے


اور خواتین پر چست لباس پر پابندی لگاکر پورا جسم ڈھانپنے والا کا لا لباس پہننے کی ہدائت کی ہے

اور ایک فتوے میں واضح کیا ہے

کہ پورے جسم کو ڈھانپنے والا کالا لباس تورات کی تعلیمات کے عین مطابق ہے ۔

یہودی علماءکی جانب سے یہ فتویٰ اس وقت جاری کیا گیا

جب عیسائی مذہب کے پیروکار ممالک میں برقعے پر پابندی لگائی گئی ہے

لیکن بدقسمتی سے ترکی جیسے بعض مسلمان ملک بھی ”آزاد خیالی“ کے نام پر عیسائیوں کے پیچھے پردے پر پابندی لگانے پر تلے ہوئے ہیں


لیکن یہودی علماءکے اس فتوے نے ایسے ”آزاد خیال “مسلمانوں کیلئے ایک سوال کھڑا کردیا ہے ۔


”العربیہ “ کے مطابق یہودیوں کے عبرانی اخبار ’معاریف ‘ میں شائع ہونے والے اس فتوے کے تحت یہودی علماءنے طہارت اور پاکیزگی کے لیے سیاہ برقعہ لازمی قراردیاہے


اور کہا گیا ہے کہ صیہونی خواتین خود کو سر تا پا مکمل طور پر ڈھانپ کررکھیں۔

مقبوضہ بیت المقدس میں شدت پسند مذہبی یہودیوں کی جانب سے جاری

اس فتویٰ میں القدس کی ’ہریڈیم سوسائٹی‘کی تمام یہودی خواتین سے کہا گیا ہے

کہ وہ اپنے سروں پر بڑی چادریں اوڑھیں

اور اپنے پورے جسم کو سر سے پاﺅں تک مکمل طور پر ڈھانپ کر رکھیں۔

اخبار کے مطابق جسم کو مکمل طور پر ڈھانپنے کی پابندی یہودی خواتین میں پہلے بھی پائی جاتی ہے


تاہم ایسی خواتین کی تعداد بہت تھوڑی ہے۔

تازہ فتویٰ یہودیوں کے جس حلقے کی جانب سے جاری ہوا ہے

وہ بیت المقدس کی’ہریڈیم‘سوسائٹی میں نہ صرف اپنا ایک خاص مقام رکھتے ہیں

بلکہ ان کی پشت پرکئی بڑے یہودی مذہبی پیشوا بھی موجود ہیں۔

خواتین کے مکمل پردے سے متعلق یہ اخبار لکھتا ہے

کہ یہودیوں کی طرف سے خواتین کے مکمل جسم کو ڈھانپنے کا فتویٰ افغانستان میں طالبان دور کے مسلمان خواتین کے پردے کے مشابہ ہے۔


اخبار مزید لکھتا ہے ،

’تازہ فتوے کا مقصد خواتین کو ہر قسم کی اخلاقی آلودگیوں سے بچاتے ہوئے

ان کی حرمت اورتقدس کو قائم کرنا ہے‘۔

فتوے میں مروجہ جدید دور کے ہر قسم کے لباس جس میں اسکرٹس اور تنگ شلوار قمیص شامل کے پہننے کی ممانعت کر دی گئی ہے

اور صرف سیاہ رنگ کا ایسا لباس اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی

جو پورے جسم کو مکمل طور پر ڈھانپ دے۔

مقبوضہ بیت المقدس میں جگہ جگہ اس فتوے پر عمل درآمد اور اس کی تشہیر کے لیے پوسٹر لگائے گئے ہیں


جن میں یہودی خواتین کو مکمل طور پر جسم کو ڈھانپنے والے سیاہ لباس اختیار کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔

نیز ریڈی میڈ گارمنٹس کا کاروبار کرنے والے تاجروں کو بھی ہدایت کی گئی ہے

کہ وہ تنگ اور چھوٹے تیارشدہ کپڑوں کی فروخت بند کر دیں

کیونکہ تنگ لباس تورات کی تعلیمات کے منافی ہے

اور عذاب کا باعث بنے گا۔

کہ یہودی فتوے کی ہدایت کے مطابق کپڑوں کی فروخت میں بے پروائی کرنے والے دکانداروں کو ’ہریدیم‘کے انتہا پسند یہودیوں کی جانب سے نہ صرف دھمکیوں کا سامنا ہے


بلکہ فتوے کی خلاف ورزی کرنے وا لے کئی دکانداروں کی دکانوں پر حملے کر کے ان کی توڑ پھوڑ بھی کی گئی ہے۔


اس فتوے پر مذہبی حلقوں کی اختلافی آراءبھی سامنے آئی ہے

اور اخبار لکھتا ہے ،

’اگرچہ نئے فتوے کے پیروکاروں کی تعداد بہت زیادہ ہے،

تاہم یہودیوں کے تمام مذہبی اس فتوے کے حق میں نہیں۔

اختلاف کرنے والوں میں یہودی مذہبیجماعت شاش بھی شامل ہے‘۔

شاس کے سربراہ اور یہودیوں کےایک اہم روحانی پیشوا عوفادیا یوسف کے صاحبزادے الراف ابراھیم یوسف کہتے ہیں

کہ ’ماضی میں یہودی مذہبی پیشواﺅں کی کسی نسل یا گروہ نے ایسا انتہاءپسندی کا مظہر لباس اختیار کرنے تاکید نہیں کی


اور نہ ہی یہودی خواتین میں ایسا لباس اختیار کرنے کی کوئی مشترکہ روایت رہی ہے۔

یہودی مذہبی پیشواﺅں کی جانب سے خواتین کو خوبصورت لباس پہننے کی ترغیب دی ہے

حتی کہ خواتین کے لیے ایام مخصوصہ میں بھی خوبصورت لباس اختیار کرنے کی تعلیم موجود ہے‘۔

نہ صرف لباس بلکہ ہ خواتین کی زندگی میں نجی مصروفیت کے حوالے سے بھی ان کیلئے موبائل فون کا استعمال ممنوع قراردیا گیا ہے


’معاریف‘ کے مطابق یہودی انتہا پسند حلقوں کی جانب سے صرف خواتین کے نئے لباس کی سختی سے تاکید نہیں

بلکہ خواتین کے موبائل فون پربات کرنے پر بھی پابندی لگائی جا رہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق آنے والے چند روز میں’ہریدیم‘سوسائٹی کی خواتین پر پبلک مقامات اور بسوں میں سفر کے دوران موبائل فون کے استعمال پر پابندی عائد کر دی جائے گی

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر