یکشنبه، تیر ۱۳، ۱۳۸۹

لاپتہ افراد کے عزیزوں کا مظاہرہ


بلوچستان میں لاپتہ بلوچوں کے لواحقین نے کہا ہے کہ پاکستان میں ابھی تک عدلیہ آزاد نہیں ہوئی ہے جس کے باعث لواحقین آج بھی عدالتوں کے سامنے احتجاج کرنے پر مجبور ہیں لواحقین نے عدلیہ سے مطالبہ کیا کہ لاپتہ افراد کومنظر عام پر لانے وہ اپناکردار ادا کرے ـ


کوئٹہ سے بی بی سی کے نامہ نگار ایوب ترین کے مطابق لاپتہ بلوچوں کی آواز ’وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز‘ کے زیراہتمام جمعہ کوکوئٹہ میں بلوچستان ہائی کورٹ کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرہ ہوا جس میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعدا د نے شرکت کی


جس سے خطاب کرتے ہوئے لاپتہ عبدالرزاق لانگو کی بیٹی نے کہا کہ انکے والد کوئٹہ سے سات ماہ قبل لاپتہ ہیں۔


مگر آج تک نہیں معلو م کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہے بقول انکے کہ انکے والد کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں تھا

انہوں نے کہا کہ آج بھی پاکستان میں خفیہ اداروں کی حکومت ہے جو اس طر ح کے ہتھکنڈوں سے بلوچستان میں جاری تحریک آزادی کو روکنے کی کوشش کررہے ہیں

بلوچستان میں لاپتہ بلوچوں کے عزیزوں کا مظاہرہ
مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے نجیب قمبرانی کی ہمشیرہ نے کہا کہ انکے بھا ئی کو گذشتہ برس اکتوبر میں کلی قمبرانی سے اٹھا گیا ہے لیکن آج تک ہمیں نہیں معلوم کہ وہ کس حال میں ہے ـ


انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین نے کئی بار سپریم کورٹ اور بلوچستان ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکٹایا اور لاپتہ بلوچوں کے مقد مات بھی دائر کیے گئے ہیں

لیکن ابھی تک عدالتوں سے ہمیں انصاف نہیں ملا ہے ـ


انہوں نے کہا کہ جمہوریت کے دعویدار حکومت کے باوجود نہ صرف ابھی تک لاپتہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے


بلکہ پہلے لاپتہ ہونے والوں پر خفیہ اداروں کے عقبوت خانوں پر اس طرح تشدد کیا جارہا ہے کہ منظرعام پر آنے کے بعد وہ ذہنی طور پر مفلوج ہوجاتا ہے


انہوں نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے بلوچستان میں ہونے ریاستی ظلم وتشدد کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر