پنجشنبه، مرداد ۰۷، ۱۳۸۹

سیستان و بلوچستان؛ بدامنی کے اصل اسباب


یہ بات ذہن میں رہے کہ مذکورہ بالا وجوہات کے علاوہ بعض دیگر اسباب سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی
جن میں سرفہرست سیستان وبلوچستان میں پھانسیوں کے بڑھتے واقعات،
مذہبی اور فرقہ وارانہ منافرت،
مذہبی تقاریب اور سرگرمیوں پر پابندی،
سنی برادری پر مذہبی لحاظ سے دباؤ ڈالانا،
عہدوں اور مناصب کی تقسیم میں انہیں مسلسل نظرانداز کرنا
اور ایک کروڑ سے زائد مسلمانوں کی مقدسات خاص طور صحابہ کرام کی شان میں کھلم کھلا گستاخی کرنا
صوبہ سیستان وبلوچستان میں امن وامان کی صورتحال پراثرانداز عوامل ہیں.
ان اسباب میں سے ایک پر زور دینا اور دیگر عوامل کو نظرانداز کرنا ہرگز مسئلے کاحل نہیں ہے۔
دیرپا امن کیلیے ٹھنڈے دل ودماغ سے اس طرح کے خوفناک اور جان کاہ سانحات کے اصل اسباب پر غورکرنا چاہیے۔
اگرصرف آہنی ہاتھ سے نمٹنے اور بدامنی کی وبا سے مقابلے کے وعدے سے کوئی پیشرفت حاصل ہوتی تو پندرہ جولائی کو بیسیوں افراد لہو لہاں نہ ہوتے
علمائے کرام اور دانشوروں اور بعض اعلی حکام اور ان کے قریب سمجھے جانے والے حلقوں نے بھی اس بات پر زور دیا
کہ ایسے واقعات سے پہلے بات ماننا ضروری ہے۔
شیعہ وسنی اور بلوچ وغیربلوچ شخصیات شروع ہی سے اس بات پر زور دیتے چلی آرہی ہیں
کہ اگرحکومت واقعی بدامنی کی ناسور سے شہریوں کو نجات دلاناچاہتی ہے
اور سرکاری اداروں اور افراد کوتحفظ فراہم کرنا چاہتی ہے
تو سب سے پہلے اس کے بنیادی علل واسباب کو ٹھونڈ نکالے۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ایک سے زائد مرتبہ جامع مسجد مکی کے منبر سے
اور دیگر ذرائع کے تھرو اس بات کی اہمیت کو واضح کرچکے ہیں۔
اپنے حال ہی بیان میں انہوں نے کہا ہے
کہ سیستان وبلوچستان کی معیشتی پسماندگی،
عوام میں پائی جانے والی احساس محرومی،
ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے
امتیازی سلوک خاص طور پر عہدون اور مناصب کی تقسیم کے معاملے میں،
تعلیم کی ابتر صورتحال اور بعض محکموں کا عوام کے ساتھ غیرمہذب رویہ،
مذہبی دباؤ اور پابندیوں کاخاتمہ،
پھانسی کا حکم دیتے وقت علاقائی اور بلوچ عوام کی مجبوریوں کو مدنظر رکھنا
ایسے مسائل اور ضرورتیں ہیں
جن کاحل سب سے پہلے ضروری ہے۔
انقلاب سے اکتیس سال گزرنے کے باوجود ابھی تک بلوچستان ’’پسماندہ‘‘
اور ’’غربت زدہ‘‘ کے لاحقے وسابقے سے پہچانا جاتاہے۔
اسی طرح سب سے زیادہ ناخواندگی کی شرح رکھنے والا صوبہ پورے ایران میں صوبہ سیستان وبلوچستان ہے۔
غربت کا یہ حال ہے کہ20 لاکھ آبادی سے پانچ لاکھ افراد امدادی اداروں کے چندوں سے گزارہ کرتے ہیں
ضرورت اس بات کی ہے
کہ امن وامان کی صورتحال کو یقینی بنانے کیلیے ایک قومی اجلاس بلایاجائے
اور اس میں ہر طبقے کے بااثر اور سرکردہ افراد کو شرکت کی دعوت دی جائے۔
قانوں نافذ کرنے والوں کو چاہیے
ایسے عمومی املاک اور لوگوں کی ذاتی جائیداد کو نقصان پہنچانے سے نہ صرف کسی نقصان کا ازالہ نہیں ہوتا بلکہ جن کانقصان ہواہے
اس کا ازالہ ازحد ضروری ہے۔
آخرمیں ایک بار پھر ہم اس بات کو دہرائیں گے
کہ لوگوں کی جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنانے
اور بعض افراد کو انتہائی اقدام پرمجبور ہونے سے بچانے کیلیے
مشترکہ قومی اجلاس بلایاجائے
تاکہ کئی سالوں سے درپیش مسائل کے اسباب کی تہہ تک پہنچ کر
قومی اتحاد اور امن کی بحالی سے زاہدان سمیت پورے ملک کو ہر قسم کے خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے ایسے تنظیم سے مزاکرات کرنی چاہیے

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر