دوشنبه، تیر ۰۷، ۱۳۸۹

زندانوں میں کہساروں پر رہنے والے نوجوانوں کیسے ہو


زندانوں میں کہساروں پر رہنے والے نوجوانوں کیسے ہو
ظلمت خانوں میں میرے نازوں پالے نوجوانوں کیسے ہو

عقو بت خانوں کو بھی تم میدان عمل بنا دینا
اور قیدو بند کے ماروں کو یہ درس جہاد پڑھا دینا

معاشرے کے ناسوروں کو پیغام حق سنا دینا
بیمار دلوں کے اندر تم نئے جذبے بھی جگا دینا

طیبہ کے شاہینو ‘میرے شہبازو ‘صابر نوجوانوں کیسے ہو
زندانوں میں کہساروں پر رہنے والے نوجوانوں کیسے ہو

اللہ بر تر نے تم کو گر آزمائش میں ڈالا ہے
کوئی راز اس میں پوشیدہ ہے کوئی عقدہ کھلنے والا ہے

قرآن پڑھو اور دھراؤ یوسف پیغمبر کا قصہ
ملا تخت مصر کی صورت میں یہ قید کا یوسف کو ثمرہ

میرے خبیب و میرے عزیزو صابر نوجوانوں کیسے ہو
زندانوں میں کہساروں پر رہنے والے نوجوانوں کیسے ہو

شمشیروں سے وہ کھیلنے والے ‘آج ہاتھ بندھے زنجیروں سے
کوئی پوچھے ان دل گیروں سے ‘ان جی دار اسیروں سے

ماؤں کے کلیجے پھٹتے ہیں ‘دل سو ٹکڑوں میں بٹتے ہیں
ہر لمحہ آنکھیں بھیگتی ہیں‘ چھا چھا کر بادل چھٹتے ہیں

اے زخمی شیرو زخمی جیالو ‘میرے پیارے نوجوانوں کیسے ہو
طیبہ کے شاہینو! میرے شہبازو! صابر نوجوانوں کیسے ہو

ہر غم کو ہنس کر سہہ لینا اس دین اکمل کی خاطر
کانٹوں پر چلنا ہے تم کو غلبے کی منزل کی خاطر

امید کا دامن مت چھوٹے پرواز کے دن پھر آئیں گے
ٹوٹیں گے در زندانوں کے ہم جلد ہی ایران آئیں گے

اصحاب الفیل کے گھیرے میں کعبے والے نوجوانوں کیسے ہو
طیبہ کے شاہینو! میرے شہبازو! صابر نوجوانوں کیسے ہو

زندانوں میں کہساروں پر رہنے والے نوجوانوں کیسے ہو
ظلمت خانوں میں میرے نازوں پالے نوجوانوں کیسے ہو

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر