چهارشنبه، خرداد ۱۲، ۱۳۸۹

امن جرگے کے دوران راکٹ حملہ اور فائرنگ


پولیس اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ بدھ کو افغان دارالحکومت کابل میں امن جرگے کے مقام سے کچھ ہی فاصلے پر دو راکٹ آکر گرے جس کے بعد فائرنگ کی آوازیں بھی سنی گئیں۔ تاہم اس میں کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں ہوا ہے۔
اس امن جرگے میں ملک بھر سے تقریباً 1600مندوبین شریک ہیں جن سے صدر حامد کرزئی کے افتتاحی خطاب کے دوران پہلا دھماکا سنائی دیا۔ صدر کرزئی نے شرکاء کو اطمینان سے تشریف رکھنے کا کہتے ہوئے کہا کہ ایسی آوازوں کے وہ عادی ہوچکے ہیں۔
عینی شاہدین کے مطابق بعد ازاں افغان صدر اپنے مسلح قافلے کے ساتھ جرگے سے روانہ ہوگئے۔
امن جرگے کے پرامن انعقاد کے لیے کابل میں ہزاروں سکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں اور راکٹ گرنے کے بعد ہیلی کاپٹروں نے بھی فضا میں پروازیں شروع کردیں۔ جرگے کا مقصداس بارے میں اتفاق رائے پیدا کرنا ہے کہ شدت پسندی کو کس طرح ختم کیا جائے اور مصالحت کی جانب کس طرح پیش رفت کی جائے۔
طالبان نے اس جرگے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ افغان حکومت بے اختیار ہے اور وہ امن مذاکرات میں شامل نہیں ہوں گے تاوقتیکہ تمام غیر ملکی فوجی افغانستان سے نکل نہ جائیں۔
ایک چھوٹے عسکریت پسند گروپ حزب اسلامی نے جرگے کو بے معنی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں صرف حکومت کے منتخب کردہ لوگ ہی شرکت کررہے ہیں۔لیکن سخت گیر مئوقف رکھنے والے شدت پسند کمانڈروں کو اس میں دعوت نہیں دی گئی۔
افغان صدراتی انتخاب میں صدر کرزئی کے اہم حریف عبداللہ عبداللہ نے یہ کہہ کر جرگے میں شرکت سے انکار کردیا ہے کہ اس میں عام افغان شہری کے مسائل زیر بحث نہیں لائے جارہے۔
تین روزہ جرگے میں سیاستدان،قبائلی عمائدین اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد شریک ہیں۔
توقع ہے کہ جرگے میں اس بات پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا کہ طالبان کے سلسلے میں کرزئی حکومت کو کس سے بات کرنی چاہیے اور یہ کہ مذاکرات کہاں ہونے چاہئیں اور افغان حکومت کی جانب سے بات چیت میں کسے قیادت کرنی چاہیے۔

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر