چهارشنبه، خرداد ۱۲، ۱۳۸۹

افغانستان میں جرگہ۔


دو جون کو کابل میں جرگہ شروع ہو رہا ہے جو تین دن جاری رہے گا۔ شرکاء صدر افغانستان حامد کرزئی کی ان تجاویز پر غور کریں گے جن کا مقصد تیس سال سے جاری رہنے والی جنگی کارروائیاں بند کر کے ملک کے حالات کو معمول پر لانا ہے- حامد کرزئی نے بالخصوص یہ تجویز پیش کی ہے کہ اعتدال پسند طالبان اور حزب اختلاف کی دیگر قوتوں کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں، طالبان پر عائد اقوام متحدہ کی پابندیاں ہٹائی جائیں اور انہیں دیگر ممالک میں پناہ فراہم کی جائے تاکہ وہ کابل کے حکام سے مکالمہ کر سکیں۔ منصوبہ ہے کہ جرگہ کے دوران مرتبہ سفارشات جولائی کے آخر میں منعقد ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کے دوران برائے غور پیش کی جائیں گی۔
جرگہ سے پہلے حفاظتی انتظامات سخت تر کر دیے گئے- پولیس نے کابل یونیورسٹی جانے والے راستے بند کر دئے اور نزدیکی عمارات کی تلاشی لے لی- کابل یونیورسٹی کی حدود میں ایک ٹیلے پر ایک بڑا سائبان نصب کیا جائے گا جہاں ڈیڑھ سو شرکاء سما سکیں گے- قبائیلی داناؤں کے علاوہ اراکین پارلیمنٹ، علمائے دین، مختلف علاقوں اور سماجی طبقوں کے نمائندے جرگہ میں حصہ لیں گے- بیس فی صد شرکاء خواتین ہوں گی- طالبان کو مدعو نہیں کیا گیا لیکن اگر وہ شرکت کی خواہش ظاہر کریں گے تو انہیں یہ موقع فراہم کیا جائے گا- بہر حال جرگہ کے شرکاء کا ایک حصہ طالبان کے موقف کا ہی اظہار کرے گا- اس سلسلے میں طالبان حکومت کے وزیر خارجہ وکیل احمد متوکل کا نام قابل ذکر ہے جنہوں نے عرصہ پہلے کابل انتظامیہ کا ساتھ دینا شروع کر دیا تھا۔
اس سے پہلے جرگہ مئی کے شروع میں بلائے جانے کا منصوبہ تھا لیکن اسے دو بار ملتوی کیا جانا پڑا- مبصرین کے مطابق اس کی وجہ یہ تھی کہ حکام کے پاس کوئی ٹھوس منصوبہ نہیں ہے- یوں لگتا ہے جسے وہ نہیں سمجھ پائے کہ طالبان سے رابطہ قائم کرنے کے بعد کونسی حمکت عملی اپنانی ہوگی- تاہم روسی سائنسی اکادمی کے تحت علم شرقیات کے انسٹی ٹیوٹ کے اہلکار Boris Dolgov نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ طالبان کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کا فیصلہ معقول ہے۔
موصوف نے کہا: طالبان کو مذاکراتی عمل میں شامل کیا جانا بلا شبھہ افغانستان میں استحکام کی ایک لازمی شرط ہے- طالبان کے بغیر ملک کے حالات کو معمول پر لایا جانا انتہائی مشکل ہوگا- یاد رہے کہ طالبان کو افغان آبادی کے بڑے حصے کی حمایت حاصل ہے۔
تاہم ایک اور اہم بات یاد رکھی جانی چاہئے- مسئلہ افغانستان محض قومی نوعیت نہیں رکھتا بلکہ یہ ایک علاقائی مسئلہ ہے- بورس دولگوو کے مطابق پاکستان کو جرگہ میں اہم مقام فراہم کیا جانا چاہئے تھا۔
پاکستان کو افغانستان میں قیام امن کے عمل میں شامل کیا جانا بہت ضروری ہے- پاکستان نے تحریک طالبان کی تشکیل میں حصہ لیا تھا اور اب وہ استحکام پیدا کئے جانے میں اہم کردار ادا کرنے کے قابل ہے- پاکستان کی مدد کے بغیر اس سلسلے میں نمایاں کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی۔
امریکی انتظامیہ جرگہ بلائے جانے کے بارے میں متضاد رویہ رکھتی ہے- یک طرف امریکی حکام پر واضح ہے کہ جرگہ نتیجہ خیز ثابت ہونے کی صورت میں افغان عوام کے رہمنا کی حیثیت سے حامد کرزئی کی ساکھ میں اضافہ ہوگا- امریکہ اس لیے ناخوش ہے کہ اس وقت حامد کرزئی کا وقار زیادہ بلند نہیں ہے- وہ بڑی مشکل سے صدارتی انتخابات جیت سکے تھے اور اب تک موثر حکومت تشکیل دینے سے قاصر ہیں۔ دوسری طرف امریکہ کابل حکام سے اپیل کرتا چلا آ رہا ہے کہ طالبان کو بڑی مراعات تب تک فراہم نہ کی جائیں جب تک انہیں جنگ میں شدید ناکامی کا سامنا نہ ہو۔
دریں اثنا حال ہی میں طالبان اور گلبدین حکمتیار کے نمائندوں نے مالدیپ جزائر میں ہونے والی خفیہ ملاقات کے دوران اس پر اتفاق کرنے کی کوشش کی تھی کہ حامد کرزئی کو کیا جواب دیا جائے- اس ملاقات کے نتائج کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ ظاہر ہے کہ حزب اختلاف کی کچھ قوتیں صدر افغانستان کا منصوبہ منظور کرنے کے لیے تیار ہیں ورنہ جرگہ بے معنی ہوتا- لیکن اس وقت یہ کہنا مشکل ہے کہ جرگہ کے عملی نتائج برآمد کیسے ہوں گے یا نہیں- محض جرگا بلائے جانے سے حقیقی مسائل حل نہیں ہوں گے لیکن اس سے اس عمل میں مدد مل سکتی ہے۔

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر