دوشنبه، آبان ۰۳، ۱۳۸۹

ایرانی اصلاح پسندوں کا مابعد انتخابات واقعات کی تحقیقات کا مطالبہ


ایران میں اصلاح پسند تحریک کی سب سے بڑی جماعت "المشارکة نے ایرانی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جون 2009ء میں ملک میں صدارتی انتخابات کے بعد پیش آنے والے ہولناک فسادات، انتخابات میں دھاندلی، مظاہرین کے قتل عام اور جیلوں میں سیاسی قیدیوں پر وحشیانہ تشدد کے تحقیقات کرائے۔

العربیہ ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق"المشارکہ کے سربراہ خاتمی کی جانب سے ایرانی ایکسپیڈنسی کونسل کے چیئرمین ہاشمی رفسنجانی کو ایک مراسلہ تحریرکیا گیا ہے۔

مراسلے میں فسنجانی سے مطالبہ کیاگیا ہے کہ وہ گذشتہ برس کے صدارتی انتخابات کے بعد رونما ہونے والے واقعات کی تحقیقات کے لیے کمشن قائم کریں۔

حکومتی دباٶ سے مکمل طور پر آزاد اور خودمختار کمیشن اس امرکی پوری چھان بین کرے کہ آیا انتخابات میں دھاندلی، مظاہرین کو کچلنے اور سیاسی قیدیوں کو ٹارچر کرنے کا ذمہ دارکون ہے۔

نیز یہ کمشنا فسادات کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی بھی سفارش کرے۔

مراسلے میں کہا گیا ہے کہ ہم انتخابات کے بعد کے واقعات کی اسی طرح تحقیقات چاہتے ہیں جس طرح احمدی نژاد نے نائن الیون کے امریکا میں ہوئے واقعات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

مراسلے میں ایرانی انقلاب کے ایک عہدیدار کے" زبانی اعترافی بیان "بیان کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ مظاہرین کو طاقت کے زور پر کچلنے اور انتخابات میں دھاندلی کے لیے انہیں اعلیٰ سطح کی حکومتی کمان سے احکامات دیے گئے تھے۔

خاتمی کی طرف سے ارسال کردہ خط میں ملک میں کرپشن کی بڑھتی لہراورمعاشی بحران پربھی حکومت کو کڑی تنقید کی گئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ تحقیقاتی کمشن ملک میں موجود افراتفری اور معاشی بحران کی بھی صحیح سمت میں تحقیق کرکے اسکے ذمہ داروں کا تعین کرے۔

دوسری جانب اصلاح پسند لیڈر اور احمدی نژاد کے ہاتھوں شکست خوردہ صدارتی امیدوار مہدی کروبی نے الزام عائد کیا ہے کہ حکومت معاشی اصلاحات پر عوامی مظاہروں کو دبانے کی آڑ میں شہریوں کا ایک بار پھر قتل عام کرنا چاہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایرانی پولیس چیف اسماعیل احمدی مقدم اشیائے صرف پر سبسڈی ختم کئے جانے پر ممکنہ عوامی احتجاج کو طاقت کے زور پر کچلنے کی تیاری کر چکے ہیں۔

مہدی کروبی کے بہ قول "عوام کو احتجاج سے روک کر ان پر طاقت کا استعمال کیا گیا تو اسے ریاستی دہشت گردی اور قتل عام سمجھا جائے گا"۔

ادھر تہران کی ایک انقلاب عدالت نے گذشتہ برس انتخابات کے بعد احتجاجی مظاہروں کی کوریج کرنے والی خاتون صحافی مہسا امر آبادی کو ایک سال قیدکی سزا کا حکم دیا ہے۔

قبل ازیں عدالت کی جانب سے مہسا کے شوہر کو بھی چھ سال قید کی سزا دی جا چکی ہیں۔

دونوں پر اصلاح پسندوں کی حمایت کرنے کا بھی الزام ہے۔

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر