پنجشنبه، آبان ۰۶، ۱۳۸۹

ایران میں سرعام زنا کی اجازت اور فتوا شیعہ مذہب کے لیے


شیعہ مذہب میں مردوں اور خواتین کو ایک مخصوص محدود مدت کے لیے شادی کی اجازت دیتاہے۔

اور یہ مدت ایک گھنٹہ سے ایک صدی تک ہو سکتی ہے۔

ایک مرد ایک وقت میں کئی خواتین کے ساتھ شادی کر سکتا ہے۔
تاہم، ایرانی معاشرہ ایسی شادیوں کو اب بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھتا۔

کیونکہ لوگ سمجھتے ہیں کہ عارضی شادیاں دراصل ناجائز جنسی تعلقات کو چھپانے کا بہانہ ہیں۔
وزیر داخلہ مصطفٰے پور محمدی، جو کہ خود ایک مذہبی رہنما تھے، کا کہنا ہے کہ شادی ایک انسانی ضرورت ہے اور عارضی شادی کو صرف جنسی تسکین کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسے معاشرتی مسائل کے حل کے طور پر دیکھنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ عارضی شادیوں کو عام کرنے کے لیے معاشرتی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ لوگوں کو چاہیے کہ وہ قدرے کم عمر میں شادیاں کریں۔
ایران میں عارضی شادیوں کو قریباً پندرہ برس قبل پہلی مرتبہ فروغ دینا شروع کیا گیا۔
اس وقت کے صدر مملکت ہاشمی رفسنجانی کا کہنا تھا کہ یہ کسی بھی مرد یا خاتون کے لیے اپنی جنسی ضروریات پوری کرنے کا جائز طریقہ ہے۔

حتٰی کہ عارضی شادی کرنے کے لیے کسی مولوی کی بھی ضرورت نہیں۔
اس وقت کے صدر مملکت ہاشمی رفسنجانی کا کہنا تھا کہ یہ کسی بھی مرد یا خاتون کے لیے اپنی جنسی ضروریات پوری کرنے کا جائز طریقہ ہے۔

حتٰی کہ عارضی شادی کرنے کے لیے کسی مولوی کی بھی ضرورت نہیں اور ایک مرد اور عورت تخلیے میں بھی ایجاب و قبول کر کے ایسی شادی کر سکتے ہیں۔
آج کل ایران میں وہ لڑکیاں جو اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ سفر کرنا چاہتی ہیں، اکھٹے کسی ہوٹل میں رہنا چاہتی ہیں اور پولیس سے بچنا چاہتی ہیں وہ کہہ سکتی ہیں کہ انہوں نے عارضی شادی کر رکھی ہے۔
اس کے علاوہ غریب خواتین اپنی مالی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی عارضی شادیاں کر لیتی ہیں۔
ایک خاتون رکن پارلیمان نے ایسے ہی جذبات کا اظہار وزیر داخلہ سے ایک سوال کی صورت میں کیا تھا۔

انہوں نے وزیر سے پوچھا کہ کیا کسی ایسے شخص کو جو ان کی بیٹی کے لیے رشتہ لے کر آئے وہ یہ بتائیں گے کہ ان کی بیٹی اس سے پہلے کتنی عارضی شادیاں کر چکی ہے۔
ایک دوسری رکن پارلیمان نے خبردار کیا ہے کہ عارضی شادیوں کو فروغ دینے سے ہزاروں مسائل جنم لیں گے۔
ملک میں پہلے ہی ہزاروں بچے ایسے ہیں جو کہ عارضی شادیوں سے پیدا ہوئے ہیں اور انہیں اس لیے غیر قانونی سمجھا جاتا ہے کہ ان کے والد یہ ماننے سے انکار کرتے ہیں کہ وہ ان کے بچے ہیں۔
ایک نماز جمعہ کے موقع پر وزیر داخلہ نے یہ تجویز بھی دی کہ ملک میں ایک ایسے سینٹر کی ضرورت ہے جو نوجوانوں کو عارضی شادی کے لیے لڑکے اور لڑکیاں تلاش کرنے میں مدد دے۔
اخبار کے مطابق ان اشتہارات میں لڑکوں اور لڑکیوں سے کہا گیا ہے کہ اگر وہ چھٹی گزارنے ساحل سمندر پر جانا چاہتے ہیں اور عارضی شادی کرنا چاہتے ہیں تو انہیں رہائش کے ساتھ ساتھ ایک نکاح خواں بھی مہیا کیا جائے گا۔
بی بی سی اردو

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر