یکشنبه، مرداد ۱۷، ۱۳۸۹

ایرانی سیکیورٹی حکام بہیمانہ تشدد کا نشانہ بناتے رہے:سابق ایرانی فوجی افسر


ایرانی ذرائع ابلاغ نے ملک کے ایک زیرحراست اصلاح پسند اپوزیشن لیڈر اور پاسداران انقلاب کے سابق کرنل حمزہ کرمی کا ایک خط شائع کیا ہے۔
خط میں حمزہ کرمی چونکا دینے والے انکشافات کرتے ہوئے کہتے ہیں
"دوران حراست ایرانی تفتیش کاران پروحشیانہ تشد کرتے رہے ہیں"۔

خیال رہے کہ حمزہ کرمی کو گذشتہ برس صدارتی انتخابات کے بعد ملک میں پھوٹنے والے ہنگاموں کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔
دوران حراست 14 ماہ سے ان پر تشدد کیا جاتا رہا۔
تشدد کے باعث حالت خراب ہونے کے بعد اب انہیں ایک اسپتال میں داخل کیا گیا ہے

جہاں ان کا علاج کیا جا رہا ہے۔

العربیہ کے مطابق حمزہ کرمی کا ایرانی خامنہ ای کا خط اصلاح پسندوں کی جماعت کی ویب سائٹ پر شائع ہوا۔
اس کے بعد پورے ملک کے میڈیا نے اسے شائع کیا ہے۔
مراسلے میں ان کا کہنا ہے کہ "تفتیش کار دوران حراست ان پر لگائے الزامات کا اعتراف کرانے کے لیے وحشیانہ تشدد کرتے رہے ہیں۔
تشدد کے دوران اسانی فضلے سے بھرے ٹائلٹ کموڈ میں ان کا سر ڈبویا جاتا اور کہا جاتا کہ
"مان لو

کہ حزب مخالف اصلاح پسند لیڈروں کی بیویوں اور بیٹیوں کے ساتھ تمہارے ناجائز تعلقات رہے ہیں"
اس پر جب میں انہیں حضرت سیدة النساء فاطمة الزھراء کی قسم یا واسطہ دیتا تو تفتیش کار اس محترم ہستی کو بھی گالیاں دیتے"۔

ایرانی میڈیا کے مطابق مسٹرکرمی نے خط میں یہ نہیں بتایا

کہ دوران تفتیش ان سے کون سے اصلاح پسند لیڈروں کی بیٹیوں اور بیویوں سے ناجائز تعلقات کا اعتراف کرایا جا رہا تھا۔
تاہم بعض مبصرین کا خیال ہے کہ ہو سکتا ہے

کہ حمزہ کرمی کا اشارہ سابق صدر ھاشمی رفسنجانی کی بیٹی فائزہ رفسنجانی اور میر حسین موسوی کی اہلیہ زھراء رھنود کی طرف ہو

کیونکہ یہ دونوں خواتین ایران کے صدارتی انتخابات کے بعد ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں شرکت کرتی رہی ہیں۔
تشدد کے بعد تفتیش کاروں کی بات ماننی پڑی

اصلاح پسندوں کی "جرس" نامی ویب سائٹ میں شائع رپورٹ کے مطابق اس خط کا سب سے پہلے انکشاف سید ھاشمی رفسنجانی نے کیا۔
اسپتال سے حمزہ کرمی کا یہ خط ڈاکٹر ھادی منافی کے ذریعے پہنچایا گیا ہے۔

اپنے خط میں کرنل ریٹائرڈ حمزہ کرمی لکھتے ہیں کہ تفتیش کار ان سے مسلسل دباٶ ڈالتے

کہ میں چوٹی کے اصلاح پسند دو قائدین میں سے ایک کی بیوی اور دوسری کی بیٹی سے اپنے ناجائز مراسم کا اعتراف کروں۔
مسلسل بیس مرتبہ دباٶ ڈالنے کے بعد جب میں نے انکار کیا

تو تفیش کاروں نے میرا سرپ کڑ کر اسے انسانی فضلے سے بھرے ٹائلٹ میں ڈبکیاں لگوائیں۔"

وہ مزید کہتے ہیں کہ تشدد کا یہ طریقہ میرے لیے ناقابل برداشت ثابت ہوا

اور مجھے مجبورا تفتیش کاروں کو کہنا پڑا

کہ میری طرف سے آپ جو اپنی مرضی کے مطابق لکھنا چاہتے ہیں لکھ دیں"۔

میں انہیں خدا کا واسطہ دیتا تو کہتے"

اس وقت ہم خود ہی خدا ہیں،

جو ہم تمہارے ساتھ چاہیں گے وہی کریں گے"۔

واضح رہے کہ حمزہ کرمی ایران کے موجودہ اصلاح پسند لیڈروں میں صف اول کے راہنما شمار کیے جاتے ہیں۔ کرمی ماضی میں ایران کی انقلابی فورس پاسداران انقلاب کے ضلع تہران کے چیف کمانڈر بھی رہ چکے ہیں۔

فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ سابق صدر ھاشمی رفسنجانی اور صدر محمد خاتمی کے سیاسی مشیر اور سیاسی شعبے کے نگران بھی رہے۔

گذشتہ سال کے آخر میں ایران میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں کرمی اصلاح پسند صدارتی امیدوار میر حسین موسوی کی انتخابی کمیٹی کے ممبر تھے۔

صدارتی انتخابات میں صدر احمدی نژاد کی دوسری مرتبہ کامیابی اور اصلاح پسندوں کی طرف سے نتائج کو تسلیم نہ کرنے پر ملک بھر میں شدید ہنگامے پھوٹ پڑے تھے۔

ایرانی حکام نے ان ہنگاموں کے الزام میں کئی دیگر اصلاح پسند لیڈروں کی گرفتاری کے ساتھ حمزہ کرمی کو بھی حراست میں لیا۔

ان پر ایک فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور ملکی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے الزام کے تحت عدالت نے انہیں 11 سال قید کی سزا کا حکم دیا۔

حمزہ کرمی نے کمرہ عدالت میں بھی برملا کہا تھا کہ اس پر تمام الزامات بے بنیاد ہیں۔

جو الزامات عائد کیے گئے ہیں

وہ سب تشدد کے بعد ان سے کرائے گئے اعترافات ہیں۔

جن کی اخلاقی اور قانونی اعتبار سے کوئی حیثیت نہیں۔

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر