جمعه، مرداد ۱۵، ۱۳۸۹

سابق عراقی صدر صدام حسین کے دور کے نائب وزیر اعظم طارق عزیز نے کہا


سابق عراقی صدر صدام حسین کے دور کے نائب وزیر اعظم طارق عزیز نے کہا ہے

کہ وہ سات سال چار ماہ سے جیل میں قید ہیں

حالانکہ ان پر عراق میں کسی فوجی یا عام شہری کے قتل کا کوئی الزام بھی نہیں۔

طارق عزیز نےسنہ 2003ء میں اپنی گرفتاری کے بعد سات سال کی اسیری کے دوران برطانوی اخبار "دی گارڈین" کو پہلا انٹرویو دیا ہے

جس میں انہوں نے کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔

طارق عزیز کا کہنا ہے کہ "انہوں نے امریکی صدر باراک اوباما سے کہا ہے

میں صدام دور میں ملک کی انقلابی کمانڈ کونسل کا رکن، بعث پارٹی کا اہم راہنما،

نائب عراقی وزیر اعظم اور وزیرخارجہ کے عہدوں پر فائز تھا،

لیکن یہ تمام عہدے نمائشی تھے اور میرےپاس کسی قسم کے اختیارات نہ تھے۔

میرے پاس صرف سیاسی عہدے تھے اور فیصلہ کن حثییت صرف صدام حسین کو حاصل تھی۔

صدام دور میں ہونے والے جرائم کے مرتکب قائدین میں ان کا نام شامل نہیں

اور نہ ہی میں کبھی سیاسی یا فوجی شخصیت کو قتل کرنے کے احکامات دیے تھے"۔

کویت جنگ کے بارے میں فیصلہ
صدام کے بارے میں گارڈین کے سوال کے جواب میں طارق عزیز نے کہا کہ وہ جب تک جیل میں ہیں

سابق صدر صدام حسین مرحوم کے بارے میں کوئی بات نہیں کریں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ "جب میں حکومت کا اہم ممبر تھا توحکومت کا دفاع میری اخلاقی ذمہ داری تھی۔

ماضی کی جب بات کی جاتی ہے اور کویت جنگ کا سول اٹھایا جاتا ہے

میں وہی بات کہتا ہوں جومیں نے صدام حسین کو بھی کہی تھی۔

کویت پرحملے کے حوالے سے صدام نے فیصلہ کیا تو میں نے انہیں کویت پرحملہ نہ کرنے کا کہا تھا

لیکن صدام نے میری تجویز نہیں مانی"۔

سابق نائب وزیراعظم مزیدکہتے ہیں

جب صدام حسین نے کویت پرحملے کا حتمی فیصلہ کرلیا تو میں نے پھر بھی کہا تھا

کہ یہ صرف تمہارا فیصلہ ہے۔

اور یہ فیصلہ ہمیں امریکا کے خلاف جنگ کی طرف لےجائے گا جو قطعا ہمارے مفاد میں نہیں۔

اس کے باوجود صدام اپنے فیصلے قائم رہے۔

میں وزیرخارجہ تھا۔

ملک کے صدر کا فیصلہ ماننا میرا فرض اور ملک کا دفاع میری ذمہ داری تھی۔

میں جو بھی کیا اپنے موقف کے مطابق کیا اور صحیح کیا"۔

ایک سوال پر طارق عزیز نے کہا کہ صدام حسین کویقین ہوگیا تھا

کہ امریکا سنہ 2002ء کے آخر میں عراق پرحملہ کردے گا۔

جنگ کو ٹالنے کے لیے صدام حسین نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے تحقیق کاروں کوعراق میں وسیع پیمانے پرتباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تلاش کی اجازت بھی دے دی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ ہم حالت جنگ میں تھے اور ہم نے امریکا سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔

صدام حسین نے مجھے کہا کہ تم امریکی وزیر انصاف رمزی کلارک کوخط لکھو کہ امریکا عراق پرحملہ نہ کرے۔

میں نے ایسا ہی کیا۔

اس کے باوجود مجھے اور صدام حسین کو یقین تھا کہ جنگ لامحالہ ہوکر رہے گی اور ایسا ہی ہوا۔

طارق عزیز نے کہا کہ اس وقت کےامریکی صدر جارج ڈبلیو بُش اور برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے دنیا کے سامنے جھوٹ بولا کہ وہ اپنے ملکوں کو بچانے کے لیے عراق پرحملہ کرنے جاررہے ہیں

جبکہ عراق پرحملہ اسرائیل کو محفوظ بنانے کے لیے گیا۔

عراق کی تازہ صورت حال
عراق کی موجودہ صورت حال کے بارے میں طارق عزیز نہایت مایوس ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ "جنگ کے بعد عراق میں اب کچھ بھی نہیں رہا۔

صدام حسین نے عراق کو تیس سال میں بنایا اور آج ہر چیز تباہ ہوچکی ہے۔

عراق میں جتنے بیمار، بھوکے، مفلس اور بے سروسامان لوگ آج ہیں تاریخ میں کبھی نہ تھے۔

جتنی ہلاکتیں آج روزانہ ہورہی ہیں ہماری گذشتہ نسلوں نے ایسا سوچا بھی نہ ہوگا۔

اس تمام تباہی اور بربادی کے امریکا اور برطانیہ ذمہ دارہیں

اور انہوں نے ہمارے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادی ہے۔

ایران کے بارے میں سوال پرطارق عزیز نے کہا

کہ ایران عراق کا سب سے بڑا دشمن ہے۔

اس کے خلاف جنگ ہمیں ہرحال میں لڑنا تھی۔

اب ایران جوہری بم بنا رہاہے پوری دنیا جانتی ہے کہ آخر کار کیا ہوگا۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا انہیں صدام حکومت کے فیصلوں کی توثیق پرکوئی شرمندگی ہے

تو انہوں اس کا جواب یوں دیا کہ " میں کوئی موقع پرست نہیں ہوں۔

عموما موقع پرست لوگ شرمندی کااظہار کرکے خود کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔

مجھے شرمندگی ہے یا نہیں، اس کا اظہار میں اس وقت کروں کا جب میں مکمل طورپر آزاد ہوں گا۔

میں اپنی مرضی سے جو حقیقت اسے بے نقاب کروں گا

لیکن جب تک جیل میں ہوں ایسی کوئی بات کہنا اپنی عزت نفس کے خلاف سمجتھا ہوں۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ میں اپنے دفاع کی قطعا کوشش نہیں کروں گا ۔

صرف وہی بات اور فیصلہ کروں گا جس سے عراقی عوام کی خدمت کی جاسکے۔

مجھے اپنی جان عزیز نہیں بلکہ ملک اور قوم عزیز ہے۔

مجھے صرف ایک بات پرشرمندگی ہے جب کہ امریکا نے 2003ء میں عراق پرحملہ کیا

تو عراقی فوج نے اس کے سامنے ہھتیار کیوں ڈالے۔

میں نے صدام حسین سے آخری ملاقات میں ان سے کہا کہ میں آپ کے ہرفیصلے کی حمایت کرتا ہوں۔

پھر ہم نے ایک دوسرے کو الوداع کہہ دیا۔

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر