دوشنبه، مرداد ۱۱، ۱۳۸۹

موسوی کی بیرون ملک کارروائیوں کے اہم راز افشاء کرنے کی ایران کو دھمکی


ایران کے اصلاح پسند لیڈر موسوی نے عندیہ ظاہر کیا ہے

کہ وہ عراق- ایران جنگ کے دوران تہران کی بیرون ملک خفیہ کارروائیوں سے متعلق اہم راز افشاء کرنے والے ہیں۔

موسوی کا کہنا ہے

کہ وہ سنہ 1988ء میں خمینی کے دباٶ پراپنے وزارت عظمیٰ سے استعفے کی وجوہات کو بھی منظرعام پر لا رہے ہیں۔

العربیہ کے ذرائع کے مطابق موسوی ایران میں انقلاب کے بعد آخری وزیراعظم تھے۔

ان کے استعفے کے بعد خمینی نے یہ عہدہ ختم کردیا تھا۔

موسوی، عراق جنگ کے دوران ایران کی بیرون ملک کارروائیوں کے مخالف رہے ہیں۔

ان کے وزارت عظمیٰ کےدور میں ایرانی انٹیلی جنس کی ملکی سرحدوں سے باہر بالخصوص عراق، افغانستان، سعودی عرب اور لبنان میں خفیہ کارروائیاں کی جاتی رہی ہیں۔

موسوی ان کے گواہ ہیں۔

العربیہ کے مطابق اصلاح پسند میر موسوی نے ایران کے خامنہ ای کو ایک خط تحریر کیا ہے

جس میں انہوں نے ایران کی خارجہ پالیسی کے اہم راز منکشف کرنے کی دھمکی دی ہے۔

اپنے خط میں انہوں نے لکھا ہے

کہ "انہیں ملکی خارجہ پالیسی کی مخالفت کی وجہ سے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹایا گیا"۔

اپنے اس خط میں وہ خامنہ ای کو مخاطب کرتے ہوئےکہتے ہیں

کہ "ایران کی لبنان، عراق، سعودی عرب اور افغانستان کے بارے میں خارجہ پالیسی آپ کے ہاتھ میں ہے۔

آپ وہاں کے بعض حکام تک ان کی حکومتوں کے علم میں لائے بغیران تک خطوط پہنچاتے ہو"۔

موسوی اپنے خط میں خامنہ ای کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہتے ہیں

کہ "عراق-ایران جنگ کے دوران اس وقت کے ایرانی وزیرخارجہ علی اکبر ولایتی کے معاون خصوصی سید محمد جواد لاریجانی نے فون کرکے کہا کہ امریکا پانچ اطرف سے ایران کی طرف بڑھ رہا ہے۔


بہ حیثیت ملک کے وزیر اعظم کے مجھے معلوم نہ ہو سکا

کہ وہ پانچ اطراف کون کون سے ہیں"۔

موسوی کہتے ہیں

کہ مجھے گمراہ کرنے کے لیے جواد لاریجانی کو مجھ مسلط کیا جارہا تھا۔

موسوی خامنہ ای کو مخاطب کرکے مزید کہتے ہیں

کہ" آپ سے بہتر اس امر سے کون واقف ہوگا

کہ ایران کی خارجہ پالیسی نے ملک کو کتنا نقصان پہنچایا ہے

اور تہران کی مشکلات میں کتنا اضافہ کیا ہے"۔

موسوی الزام عائد کرتے ہیں

کہ مجھے وزارت عظمیٰ کے دور میں بھی بہت سے ریاستی امور سے مسلسل لاعلم رکھا جاتا تھا۔

کاروائی کے بعد ہمیں پتا چلتا کہ ایرانی اہلکاروں نے کسی دوسرے ملک میں کارروائی کی ہے۔

ہوائی جہازوں کے اغواء ہونے کے بعد معلوم ہوتا

کہ ایسی کوئی کارروائی کی گئی ہے۔

لبنان کی کسی سڑک پر کسی ایرانی کی فائرنگ کی اطلاع اس وقت ملتی

جب پوری دنیا میں اس کی خبر پھیل چکی ہوتی

اور حج کے دوران ایران کی دھماکہ کرانے کی سازشوں کو ناکام بنائے جانے کا علم اس وقت ہوتا

جب سعودی حکام شبے میں ایرانیوں کو گرفتار کر لیتے"۔

وہ مزید کہتے ہیں"

انہیں افسوس اس بات کا ہے

کہ دنیا بھرمیں ہونے والی کسی بھی کارروائی کا الزام براہ راست یرانی حکومت کے سرتھوپ دیا جاتا تھا،

حالانکہ ایرانی حکومت کو کارروائی عمل میں لائے جانے کے بعد اس کا علم ہوتا۔

اس صورت حال نے ایران کو بہت نقصان پہنچایا،

اس کا اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔
ایران پرحملے کا امکان
اُدھر دوسری جانب امریکی عسکری کمان کے سربراہ مائیکل مولن نے کہا ہے

کہ ایران نے جوہری پروگرام پرکام جاری رکھا

تو تہران پر حملہ تیار ہے۔

تاہم انہوں نے ایران پر حملے نتائج پر شدید تشویش کا بھی اظہار کیا۔

مائیک مولن کا کہنا تھا کہ ایران پر حملے کے خطے کے امن پرتباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں

تاہم امریکا، ایران کو جوہری طاقت بننے سے روکنے کے لیے ایسا کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔

واشنگٹن میں ا پنے ایک بیان میں امریکی آرمی چیف نے کہا

کہ ایران کے خلاف فوجی کارروائی کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا۔

تاہم ہمیں توقع ہے کہ ایران ہمیں ایسا کرنے پر مجبور نہیں کرے گا۔

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر