دوشنبه، شهریور ۰۱، ۱۳۸۹

جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے تو اس کے وہ سب گناہ معاف کر دئے جائیں گے


مسلم معاشرے میں کئی طرح کے افراد پائے جا رہے ہیں۔

کچھ وہ ہیں جو حقیقتِ اسلام سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔

رمضان کی اہمیت و فضیلت کو سمجھتے ہیں اور روزے اسی مثالی طریقے سے رکھتے ہیں جو ان کی روح ہےاور الحمدللہ اس کے فوائد سمیٹتے ہیں

یہ اسلامی معاشرے کی کریم ہیں مگر قلیل ہیں۔
لیکن اکثریت ایسے مسلمانوں کی ہے جو رمضان میں روزے کا اہتمام تو کرتے ہیں لیکن اس کی روح سے ناآشنا ہیں اور فرمانِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مطابق بھوک اور پیاس کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتے ۔۔۔۔ نہ رب کی رضا ، نہ تربیت ، نہ جنت ، نہ بےحد و حساب اجر ، نہ گناہوں کی معافی !
بھلا کیوں ؟

فرمانِ نبئ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ۔۔۔
من صام رمضان إيمانا واحتسابا، غفر له ما تقدم من ذنبه ... من قام رمضان إيمانا واحتسابا، غفر له ما تقدم من ذنبه ...
جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے تو اس کے وہ سب گناہ معاف کر دئے جائیں گے جو اس سے پہلے سرزد ہوئے ہوں گے اور جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان میں قیام کیا تو اس کے وہ قصور معاف کر دئے جائیں گے جو اس نے پہلے کئے ہوں گے۔


صحیح بخاری ، صحیح مسلم
  • روزہ رکھا ، جھوٹ نہ چھوڑا اور جھوٹی قسمیں کھا کھا کر مال بیچا
  • رمضان آیا تو مال کی قیمت بڑھا دی
  • ناجائز منافع خوری شروع کر دی کہ عید آ رہی ہے خرچ بڑھ جائے گا
  • دودھ میں پانی ملا دیا
  • اچھا دکھا کر گلا سڑا پھل تھیلے میں ڈال کر دے دیا
  • ملازمت کے اوقات میں ڈنڈی ماری یعنی دیر سے آئے اور جلدی گھر چلے گئے اور روزے رکھ کر خیانت کے مرتکب ہو گئے
  • پولیس والوں نے ٹریفک کے ناکے زیادہ کر دئے ، رشوت کے ریٹ بڑھا دئے ، رمضان میں عیدی جو بنانی ہے
    یہ اور اس طرح کے سارے افعال جھوٹ کی قسمیں ہیں اور روزے کے اجر کو چاٹ جانے والی ہیں۔
    سیر بھر اجر کمایا ، من بھر گناہ کر لئے۔
    اس لیے روزے رکھ کر "احتساب" ضروری ہے کہ اجر حاصل ہو رہا ہے یا ضائع ہو رہا ہے؟
    اور یہ "احتساب" ہر طبقۂ زندگی کے افراد کے لیے ضروری ہے۔

عورت ہو یا مرد ، استاد ہوں یا علماء ، تاجر ہوں یا ڈاکٹر ، حکومتی اہلکار ، عدلیہ ، سیاستداں ، کسان یا مزدور ۔۔۔ سب اپنے اپنے کام اور اپنی اپنی دیانتداری پر نظر ڈالیں اور جائزہ لیں کہ :
روزہ کتنا درست روزہ ہے؟

جس کے روزے کے ساتھ جتنا احتساب اور محنت ہوگی ان شاءاللہ اتنا ہی وزنی روزہ ہوگا ، میزانِ عمل کو بھاری کر دے گا۔
اسی طرح قیام اللیل کے ساتھ بھی "احتساب" کی شرط لگائی گئی ہے۔

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر