آج امّتِ مسلمہ ذلّت و رسوائی کے جس گڑھے میں گری ہوئی ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے اپنے دین کو چھوڑ دیا ہے،
اور جہاد کو چھوڑ دیا ہے۔ ہم نے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھلا دیاہے۔
ہم سب مل کر اللہ کے سامنے گڑگڑائیں، اپنے اللہ کو راضی کر لیں۔
ہمیں چھوٹے بچوں سے سبق لینا چاہیے جنہیں اگر کوئی تکلیف پہنچ جائے وہ رونا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ جانتے ہیں کہ اسی سے ہمارا کام بنے گا۔
ہمارے پاس بھی اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں کہ اپنے رب کے سامنے روئیں، گڑگڑائیں اور توبہ کریں کہ وہ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی امّت کو سنبھال لے جو کہ جہاد کو چھوڑ کرمسلمانوں نےمشرک اور کافروں کے ہاتھوں اپنے اعمال کے باعث ذلیل و رسوا ہو رہی ہے۔
ارے! یہ تو ہم ہی ایسے ظالم ناشکر ہیں کہ اپنے اللہ کے راستے جہاد سے منہ موڑ رکھا ہے اور وہ تو ایسا رحیم و کریم رب ہے کہ فرما رہا ہے:”
اے میرے بندوجنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، خدا کی رحمت سے نا اُمید نہ ہونا، خدا تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے،
وہ تو بخشنے والا مہربان ہے ذرا انداز تو دیکھیں! کس محبت سے ایک مالک اپنے نافرمان بندوں سے مخاطب ہے۔
اگر ہم اب بھی ایسے رب کو بھلا دیں تو ہم سے بڑا احسان فراموش اور کون ہوگا؟
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:”کیا اب بھی مومنوں کے لئے وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دل خدا کی یاد سے نرم ہو جائیں۔ ”
جب کوئی بندہ توبہ کرتا ہے تو آسمانوں پر اس خوشی میں چراغا ں کیاجاتا ہے۔ فرشتے پوچھتے ہیں کہ یہ چراغاں کیسا ہے تو جواب ملتا ہے کہ آج ایک بندے نے اپنے اللہ سے صلح کرلی ہے”۔ “
فرشتے جب انسانوں کو اس طرح نافرمانیاں کرتے دیکھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ سے کہتے ہیں کہ اجازت دیں کہ ایسے نافرمانوں کو ہلاک کردیں،
سمندر کہتا ہے اجازت ہو تو میں ان نافرمانوں پر چڑھ جاؤں تو اللہ پاک فرماتے ہیں کہ تم میرے اور میرے بندے کے درمیان دخل نہ دو میں اپنے بندے کی توبہ کا انتظار کرتا ہوں”۔
خدارا! غور کریں کہ آج ہم بے حسی کے کس مقام تک پہنچ چکے ہیں۔
کتے کو بھی جس در سے ایک وقت کی روٹی مل جائے تو وہ اُس دَر کا وفادار بن کر رہتا ہے۔
لیکن ہم نے اپنے مالک سے کتنی وفا کی جو ہمیں کھلا رہا ہے، پلا رہا ہے، سُلا رہا ہے، ان گنت نعمتیں عطا کر رکھی ہیں۔
ابھی بھی وقت ہے کہ ہم سب سچے دل سے توبہ کریں اور آئندہ کے لئے گناہوں سے باز آجائیں۔
اوراللہ پاک کے راستے میں جہاد کے لیے آج اور اسی وقت مشرک اور کافروں کے مقابلے میں نکل جاہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیتِ مبارکہ میں توبہ کی چند شرائط بتائی ہیں کہ ”خدا انہیں لوگوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جو نادانی سے بُری حرکت کر بیٹھتے ہیں، پھر جلد توبہ کر لیتے ہیں۔
پس ایسے لوگوں پر خدا مہربانی کرتا ہے اور وہ سب کچھ جانتا (اور)حکمت والا ہے۔
اور ایسے لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہوتی جو (ساری عمر) برے کام کرتے ہیں، یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت آموجود ہوتو اس وقت کہنے لگے کہ اب میں توبہ کرتاہوں اور نہ ان کی (توبہ قبول ہوتی ہے) جوکفر وشرک کی حالت میں مریں۔
ایسے لوگوں کے لئے ہم نے عذابِ الیم تیار کررکھا ہے۔ یعنی توبہ صرف ان کی قبول ہوتی ہے جو نادانی اور جہالت میں غلطی کرتے ہیں۔
اور دوسرا یہ کہ جب غلطی ہو گئی تو پھرتوبہ کرنے میں دیر نہیں کرتے اور انہیں اپنے گناہ پر ندامت ہوتی ہے۔
اور تیسرا یہ کہ سب کچھ اللہ کی مہربانی سے ہوتا ہے یعنی توبہ کی توفیق بھی اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتے ہیں۔
یعنی ”وہ تو دلوں کے بھیدوں تک سے واقف ہے۔ اس لئے توبہ کے لئے خلوصِ نیّت بھی شرط ہے۔
اور ایک شرط یہ ہے کہ توبہ کے بعد اعمالِ صالحہ اختیار کرے۔ اللہ پاک ہمارے توبہ قبول فرماے آمین۔
دالبندین آنلاین